Pages

Showing posts with label A SALAFI-HANAFI-AHLE HADITH Aqeedah issues. Show all posts
Showing posts with label A SALAFI-HANAFI-AHLE HADITH Aqeedah issues. Show all posts

فتوٰی ا ما م الحرمین محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت



مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی

عرض مترجم
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين ولا عدوان إلا على الظالمين والصلاة والسلام على خاتم الأنبياء والمرسلين محمد سيد بني آدم أجمعين وآله الطاهرين وصحابته ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
یہ فتوٰی مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی مملکت عربیہ سعودیہ کے سربراہ کی  حیثیت سے ا ما م الحرمین  فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہے  اورسیکرٹریٹ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے اہتمام سے جاری ہوا ہے۔
اس تفصیلی فتوے میں دراصل ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت اور اس سے جڑے تمام پہلؤں پر علما ء اہل سنت والجماعت کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ فتوٰی ایک ایسے وقت میں  آیا ہےجب کچھ نادان مسلمان ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی  تقلیدکرنےکی مخالفت کر رہے ہیں  اورمسلمانوں میں خلفشار کر رہے ہیں ۔     اس سے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والے مسلمان جو دنیا کےتمام  مسلمانوں میں  لگ بھگ 96 فیصد ہیں    (شیعہ حضرات کو چھوڑ کر ) پریشان ہیں ۔
ائمہ اربعہ کے تقلید کی مخالفت کرنے والے عام مسلمانوں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور ان سے ایک حکمت عملی کے طور پر ایسے سوالات پوچھتے ہیں جس سے ایک کم پڑھا لکھا مسلمان  پریشان ہو جاتا ہے     
جیسےآپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلتے ہیں یا امام ابو حنیفہؒ(یا امام شافعی ؒ ،/امام مالک ؒ /امام احمؒد /) کے دین پر
فوراجواب ملتا ہے:  یقیناً حضرت محمد ؐ کے دین پر۔
اس پر ایک دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے : پھر  آپ اپنے کو حنفی کیوں کہتے  ہیں؟
ایک عام مسلمان جو علم نہیں رکھتا اس سوال سے پریشان ہو جاتا ہے ۔اسکا فائدہ اٹھا کر اس کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کیئے جاتے ہیں ۔
اوپر دیئے گئے سوالوں کا استعمال کرکے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت یہ غلط تصور عوام میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے  کہ اگر آپ  حنفی ہیں تو آپ امام ابو حنیفہ کے دین پر عمل کر رہے ہیں  ،نہ کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
تقلید کی مخالفت والے بعض مششد د لوگ تو تقلید کو حرام تک قرار دے رہے ہیں اور بعض تو کفر اور شرک تک بتا رہے ہیں اور آج کے انٹر نیٹ کے زمانے میں پورے زور شور سے اس کا پرو پیگنڈۃ کر ہے ہیں ۔اللہ  ان نادان مسلمانوں کو  عقل سلیم عطا کرے  اور سلف الصالحین  کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا کرے   ۔
اللہ کی ذات  سے امید ہے کہ امام الحرمین اور مسلمانوں کے اصل مرکز سے جاری ہوا یہ فتوٰ ی نادان مسلمانوں کےپروپیگنڈہ کا موثر جواب ہوگا اور عام مسلمانوں کو شکوک و شبہات سے نکال کر اللہ اور اسکے رسو ل اللہ ﷺکی اطاعت پر جمائے گا ۔امید ہے کہ مسلمانان عالم     اپنا وقت اور صلاحیت فتنہ انگیزی اور خلفشار سے بچا کر دین کی دعوت انسانیت کی فکر اس کی بھلائی اور دین کے دوسرے مثبت کاموں میں صرف کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے

 http://muslimleak.blogspot.in/

اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔




مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی





بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی
مملکت عربیہ سعودیہ
(ڈاکٹر عدنان حکیم کے سوالات کا جواب)

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، میں درودوسلام کہتا ہوں کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جو ہمارے آقا ہیں اور اس کے بندے اور رسول نیز آپ کی آل پر اور تمام اصحاب پر ۔ 

سوال نمبر1۔ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام، اور فقہاء امت کا اجماع حجت شرعیہ ہے یا نہیں؟ اور کیا اجماع تشریع اسلامی کا تیسرا ماخذ ہے یا نہیں ؟ اجماع کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے ؟ اور بلکیہ اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے ؟

جواب۔ باتفاق علماء صحابہ کرام کا اجماع حجتِ شرعیہ ہے اسی طرح تابعین اور فقہا کا اجماع بھی حجت شرعیہ ہے البتہ اس میں داؤد ظاہری نے اختلاف کیا ہے ان کی راے یہ ہے کہ غیر صحابہ کا اجماع حجت شرعیہ نہیں لیکن حجت ہونے کا قول صحیح ہے کیونکہ حجیت اجماع کے دلائل عام ہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہ وغیر صحابہ سب کے اجماع کو شامل ہیں اس صرف صحابہ کرام کے اجماع کو حجت کہنا سینہ زوری ہے ، اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ! کتاب و سنت کے بعد اجماع کو تشریع اسلامی کے مآخذ میں سے تیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے ۔
دلائل حجیت اجماع۔۔۔۔۔ جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے اس پر کتاب و سنت کے بہت سے دلائل ہیں ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔ فرمان خداوندی ہے " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً 
 جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور سبیل المومنین کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلتا ہے ہم اس کو ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرتا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے ۔ (سورہ نساء115)۔
اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کے ترک پر وعید فرمای ہے اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ وارد ہوتی۔ اور اس وعید میں سبیل المومنین کے ترک کو اور مخالفت رسول کو جو حرام ہے جمع نہ کیا جاتا اور جب غیر سبیل المومنین کی اتباع حرام ہے تو سبیل المومنین کی اتباع واجب ہوگی اور اجماعی حکم سبیل المومنین ہے لہذا اس کی اتباع واجب ہے ۔

۔ 2۔۔۔۔۔۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یافرمایا امت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔ (ترمذی) اور
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے کٹا وہ آگ میں پڑا۔ (ترمذی) ان سب احادیث کا اختلاف الفاظ کے باوجود مفہوم ایک ہے ۔
یعنی مجموعی طور پر امت کا خطا سے معصوم ہونا۔ اس سے ثابت ہوا کہ علماء کا اجماع حجت شرعیہ ہے۔ ہمیشہ ان احادیث سے بغیر کسی رد وقدح کے پہلے صحابہ کرام پھر ان کے بعد والے علماء عظام حجیت اجماع کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ تاآنکہ بعد میں مخالفینِ اجماع پیدا ہو گئے۔

منکرین اجماع کا حکم۔۔۔۔ اجماع قطعی کے منکر کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں۔
۔(1)۔ ۔مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر ہے۔
۔(2)۔ مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی حکم کا دین میں سے ہونا امر قطعی ہو جیسے پانچ نمازیں تو اس کا انکار کفر ہے اور اگر اس کا دین میں سے ہونا امر قطعی نہ ہو تو اسکا انکار کفر نہیں۔تاہم اجماع کی مخالفت جایز نہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ 
سوال نمبر 2۔۔۔۔۔۔ قیاس کی بنیاد ظن پر ہے اس جس چیز کی بنیاد ظن پر ہو وہ ظنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ظن کی اتباع سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس چیز کے پیچھے مت چل جسکا تجھے علم نہیں" (الاسراء۔ 36)لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباعِ ظن ہے"۔

جواب۔۔۔۔۔ قیاس فقہ اسلامی کے ماخذ میں سے چوتھا ماخذ ہے اور اس کی حجیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اس پر صحابہ کرام، تابعین اور فقہا امت نے قرنہا قرن عمل کیا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک قیاس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکاروں نے اس کا انکار کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ہے ، ان کے دلایل میں سے ایک دلیل ہوی ہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ۔ علماء نے ان کے دلایل کے جوابات بھی دیے ہیں ، ہم مختصر طور پر بعض جواب ذکر کرتے ہیں ۔ اور اگر آپ کو مزید وسعت درکار ہو تو کتب اصول فقہ کی طرف مراجعت کیجیے۔ مثلاً علامہ جوینیؒ کیالبرھان، امام رازیؒ کی المحصول، الاحکام للآمدییؒ، شروح مختصر ابن حاجبؒ، اصول سرخسیؒ، اور عبدالعزیز بخاریؒ کی کشف الاسرار ان کتابوں میں منکرین قیاس کا تفصیلی رد ہے۔ بہرکیف وہ آیات جن میں اتباع ظن سے نہی کی گئی ہے، ان کا قیاس شرعی سے کوئی تعلق نہیں نہ اس پر منطبق ہوتی ہیں کیونکہ ان آیات میں چیز سے نہی کی گئی ہے وہ ہے ۔ عقائد میں ظن کی اتباع۔ رہے احکام عملیہ سو ان کے اکثر دلائل ظنی ہیں اگر ہم اس شبہ کا اعتبار کر لیں تو ہمیں وہ تمام دلائلِ شرعیہ ترک کرنے پڑیں گے جو ظنی الدالات ہیں اور یہ باطل ہے ۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے  
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الإسراء: 36 "سے استدلال سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود نہی ہے اس بات سے کہ کوئی انسان محلِ یقین میں امکانِ تیقن کے باوجود حصولِ یقین سے انحراف کر کے ظن و تخمین پر اعتماد کرے پس یہ نہی قیاس شرعی کو شامل نہیں کیونکہ فرع واصل کے درمیان علت جامعہ پاےئےجانے کی وجہ سے حکم کے اعتباد سے فرع کو اصل کے ساتھ لاحق کرنا اس حکم کے قبیل سے نہیں جس سے آیت میں منع کیا گیا ہے ، یعنی بغٰر علم کے قول کرنا، کیونکہ مجتہد اسی چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک راجح ہوتی ہے اور اسکا اجتہاد اس تک پہنچتا ہے۔

سوال نمبر 3۔۔۔۔۔ قیاس شرعی کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء نے قیاس کی حجیت کو کتاب و سنت اور اجماع سے نیز عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے، ہم ان میں سے بعض ذکر کرتے ہیں اور اگر مزید دلائل معلوم کرنے کا ارادہ ہو تو ان کتب اصول کی طرف مراجعت کی جاے جن کا میں نے منکرین قیاس کے شبہات کے رد میں پہلے ذکر کیا ہے۔ کتاب اللہ سے دلیل فرمان الہیٰ ہے۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ ِلأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنْ اللَّهِ فَأَتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمْ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ (الحشر: 2
اللہ وہ ہے جس نے اہلِ کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ پہلے حشر کے وقت تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے سو ان پر اللہ کا عذاب ایسے طور پر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا وہ گراتے تھے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنین کے ہاتھوں، پس عبرت پکڑو اے ارباب بصیرت محل استدلال اللہ تعالیٰ کا فرمانفاعتبروایااولی الابصار ہے ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اس عذاب کی خبر دی جو بنو نصیر پر نازل ہوا تو ان کو حکم دیا کہ وہ عبرت پکڑیں اور الاعتبار العبور سے مشتق ہے ۔ اور العبور کا معنی ہے المجاوزۃ یعنی گذرنا۔ مقصود یہ ہے کہ اپنے نفوس کو ان پر قیاس کرو کیونکہ تم بھی ان جیسے بشر ہو اگر تم ان جیسے کام کرو گے تو تمہارے اوپر بھی وہی عذاب اتر پڑے گا جو ان پر اترا۔ پس یہ آیت تمام انواعِ اعتبار کو شامل ہے اور جب قیاس میں فرع واصل کے درمیان موجود علت جامعہ کی وجہ سے فرع سے اصل کی طرف مجاوزت ہوتی ہے تو یہ بھی اس اعتبار کے انواع میں داخل ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور
 سنت سے دلیل یہ ہے کہ
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کویمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو دریافت فرمایا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ ۔ فرمایا ! اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر آپ کو سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر؟ کہنے لگے میں اپنی رائےسے اجتہاد کروں گا۔ اور اسمیں کوتاہی نہ کروں گا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس پر اللہ کا شکر ہے جس پر اللہ کا رسول راضی ہے۔ (ابوداود۔ ترمذی، مسند احمد، ابوداود طیالسی) اور اس کی بہت سے محققین نے تصحیح کی ہے ) وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کتاب و سنت سے اجتہاد کی طرف منتقل ہونے کو درست قراردیا ہے اور قیاس بھی اجتہاد کے انواع میں سے ایک نوع ہے۔ علاوہ ازیں عمل بالقیاس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور ہر وہ امر جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو وہ حق ہے اس کا التزام واجب ہے،

اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اپنا مشہور حکمامہ تحریری طور پر بھیجا کہ اشباہ و نظایر کو پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجیے (سنن کبریٰ بیہقی، الفقیہ والمتفقہ للخطیب)
 عقلی دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص محدود اور متناہی ہیں اور لوگوں کو درپیش مسایل غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر زمان و مکان میں نےء مسایل ظہور پذیر ہوتے ہیں سو اگر ان کے احکام معلوم کرنے کے لیے کتاب و سنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی کے باقی رہ جائیں  گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے اور تمام نے پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے: ہر ہر واقعہ کے لیے شریعت میں حکم موجود ہے اور مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں۔

سوال نمبر 4۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے جو درست اجتہاد کرے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو غلط اجتہاد کرے اس کے لے ایک اجر ہے۔

جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد حاکم یا قاضی یا عالم مجتہدہے ۔ جب اس نے اجتہاد کیا اور اپنی ممکنہ استطاعت کسی مسلہ کے حکم معلوم کرنے میں صرف اس کے باوجود اس سے حکم میں غلطی ہو گئی تو وہ گناہ گار نہ ہو گا بلکہ اپنے اجتہاد پر ماجور ہو گا اور اگر اس نے حق کو پالیا تو اس کے لیے دو گنا اجر ہو گا ایک اجر اجتہاد پر دوسرا صابت حق پر: بشرطیکہ وہ شرائط اجتہاد کا علم و حامل ہو اور اگر شرائط اجتہاد کا عالم و حامل نہ ہو اور محص تکلف کر کے اجتہاد کرے اور علم کا دعویٰ کرے تو یہ حدیث اسکو شامل نہیں :
سوال نمبر 5۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کی آراء کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہوں تو کیا وہ قانون شرعی ہو جاتا ہے ؟ کیا اس کی اتباع واجب ہے ؟ یا اس کی مخالفت جائز ہے ؟

جواب۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہو جائیں تو اس کو اجماع شمار کیا جاتا ہے جس کی مخالفت ناجائز اور اتباع واجب ہے اور جو اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے وہ اس وعید کی زد میں آتا ہے جس کو ہم نے حجیت اجماع کے دلائل میں ذکر کیا ہے :۔
سوال نمبر 6۔۔۔۔۔۔ کیا احکامِ شرعیہ کے لیے قیاس کا چوتھے ماخذ کے طور پر اعتبار کیا جاتا ہے ؟

جواب۔۔۔۔۔کتاب و سنت اور اجماع کے بعد احکامِ شرعیہ معلوم کرنے کے لیے قیاس چوتھا ماخذ ہے۔ اس کے ذریعے احکامِ شرعیہ معلوم کئے جاتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں امام بخاریؒ نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کسی کے لیے بچاؤ نہیں مگر کتاب اللہ میں یا سنت نبویہ میں یا علماء کے اجماع میں جبکہ ان میں حکم موجود ہو پس اگر ان میں حکم موجود نہ ہو تو پھر قیاس ہے ۔ اس پر امام بخاری نے ترجمۃ الباب قائم کیا باب الاحکام التی تعرف بادلایل وکیف معنی الدلالۃ و تفسیر ھا۔ یعنی یہ باب ہے ان احکام کے بیان میں جو دلایل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور دلالت کیسے ہوتی ہے اور اس کی کیا تفسیر ہے ؟
(احکام القرآن 7۔172)

سوال نمبر7۔۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ اگر قائل کی مراد "انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین" والا قیاس ہے تو قائل کا یہ قول درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا اور غلط قیاس کیا اور حکماء نے کہا ہے کہ اللہ کے دشمن نے غلط کہا کیونکہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی حالانکہ وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں کہ وہ دونوں بے جان مخلوق ہیں۔ اور اگر قائل کا مقصد قیاس شرعی کا انکار و رد ہے اور اس پر طعن! تو یہ نا جایز ہے، کیونکہ ماہرین علماء کا اجماع ہے اخذ بالقیاس پر: اور اجماع مخالفت حرام، جبکہ شاذ اقوال کا کوی اعتبار نہیں۔
سوال نمبر8۔۔۔۔۔ اسلامی شریعت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید (یعنی تقلید شخصی) کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ مسئلہ تقلید کے اعتبار سے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔
۔(ایک)۔ مجتہدین یعنی وہ علماء جو دلائل سے مسائل مستنبط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ ان پر اجتہاد واجب ہے ۔

(
دو) عوام، یعنی وہ لوگ جو اجتہاد کی قدرت و اہلیت نہیں رکھتے ان کے لیے آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے۔ اور تقلید سے مراد یہ ہے کہ فقہی مسائل میں دلیل جانے بغیر مجتہد کے قول کی اتباع کرنا۔ اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الأنبياء:
پس پوچھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے۔ (الانبیاء-7) اور
 رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان زخمی صحابی کے مشہور واقعہ میں کہ " جب وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا: عاجز آدمی کے لیے بجز سوال کے کسی بات میں شفا نہیں"( ابوداؤد۔ ابن ماجہ، احمد ، حاکم، طبرانی)اور عامۃ الناس کو اجتہاد کا مکلف بنانا متعدذ ہے، کیونکہ اجتہاد کا تقاضا ہے کہ مجتہد میں خاص ذہنی صلاحیت ہو۔ علم میں پختگی ہو اور لوگوں کے احوال اور وقایع کی معرفت اور طلب علم اور اس پر صبر کی عادت اور اگر سب لوگ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ان کے حصول میں مشغول ہو جائیں تو کاروبار معشیت باطل ہو جائیں گے اور نظام دنیا درہم برہم ہو جاے گا ۔

سوال نمبر 9۔۔۔۔۔۔ کیا یہ آیت کریمہ "اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ " آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید پر منطبق ہوتی ہے یا نہیں ؟

جواب
۔۔۔۔۔ آیت سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو ارباب کی طرح بنالیا کیونکہ انہوں نے ان کی ہر چیز میں اطاعت کی چناچہ امام ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں میں نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آیا کہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی آپ نے فرمایا اے عدی اس کو اتار پھینک۔ یہ بت ہے اور میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے سورہ براءۃ کی یہ آیت تلاوت کی اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم(توبہ۔31) پھر فرمایا خوب سن لو وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے یہ اس کو حلال سمجھتے اور جب وہ ان پر کویئ چیز حرام کرتے تو یہ اس کو حرام سمجھتے۔ سو کہاں آئمہ اربعہ اور کہاںوہ احبار جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اللہ کی حلال ٹھہرائ ہوئ چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں ۔ اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ائمہ اعلام کو ان احبار جیسا سمجھا جائے کیونکہ ان ائمہ نے شریعت اسلامیہ کی خدمت میں اپنی پوری قوت صرف کی اور اس میں اپنی زندگیاں لگا دیں ان کے درمیان جو مسائل میں اختلاف ہے وہ درحقیقت اختلاف اجتہادات کی وجہ سے ہے ۔ ان کا یہ اختلاف باعث اجر ہے ۔ اور یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت ائمہ اربعہ کو بھی شامل ہے جھوٹ ہے ، بہتان ہے ۔ اسکا سبب جہالت عظیمہ ہے ۔
سوال نمبر 10۔۔۔۔۔۔ کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید شرک و کفر کے زمرہ میں داخل ہے ؟؟
جواب۔۔۔۔۔ ائمہ اربعہ کی تقلید غیر مجتہد کے لیے جائز ہے اس کا کفر و شرک کے ساتھ کویئی تعلق نہں آئمہ اربعہ حق اور دین کے داعی ہیں ۔ انہوں نے اپنے نفوس کو علم شریعت کے سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کر دیا۔ حتیٰ کہ اس علم کا بڑا حصہ پایا۔ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کی قدرت و صلاحیت پیدا ہو گیء۔ سو عامۃ المسلمین جو ان کے مقلد ہیں وہ راہِ ہدایت اور راہِ نجات پر ہیں انشاللہ۔

سوال نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مقلدین شرک اور کفر کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ عقیدہ غلط ہے اس کی قطعاً کوی بنیاد نہیں اور یہ عقیدہ دلالت کرتا ہے شریعت اسلامیہ سے بڑی جہالت پر کیونکہ شریعت اسلامیہ نے کفروایمان شرک وتوحید کے درمیان فرق کیا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ دین کا اتنا حصہ ضرور سیکھے جس کے ساتھ وہ شرک و کفر اور اجتہاد کے درمیان فرق کر سکے۔

سوال نمبر 12۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کے محتاج ہیں یا نہیں؟ اور جس مسئلہ میں نص نہ ہو اس میں تقلید گمراہی ہے یا نہیں ؟۔
جواب۔۔۔۔۔۔ اسکا جواب ویسا ہی ہے جیسا ہم نے پہلے تفصیلاً لکھا ہے کہ غیر مجتہد محتاج ہے مجتہد کی تقلید کی طرف اور مجتہد کی تقلید خواہ غیر منصوص مسئلہ میں ہو یا نص کے سمجھنے میں ہو جائزہے یہ تقلید گمراہی کی طرف مفضی نہیں ہے بلکہ اسکا گمراہی سے کوی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔  


The Best Source Book of Islamic Aqeedah based on Quran and authentic Sahaih Hadith

(NOTE:On searching internet we found that this series is among the best Aqeedah education programme Article. So we decided to post in this blog.Taken with Jazakallahu Khair from here 
Book on Islamic Aqeedah?

As we came to know that there are only two sources of Islamic Aqeedah
  • The Holy Quran and
  • Sahih Ahadith.

         So obviously the Books on Islamic Aqeedah are The Holy Quran and all the Sahih Ahadith.

Now the question arises What is the need of an 

separate Aqeedah Book by any Scholar?

The Holy Quran has been sent to the Prophet Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam by Allah in the period of 23 years according to the need of time, The Holy Quran is not arranged topic wise e.g Aqeedah Chapter, Jurisprudence Chapter, Chapter on Social issue, Economic issues or on manners. Almost same is the case of Ahadith collection although the major books of Hadith has chapters but still not very finely defined.
         So for having comprehensive knowledge on Aqeedah it has to be collected from Quran and authentic ahadith and has to be compiled.

To fulfil this requirement of general Muslims the Scholars compiled book on Aqeedah of Islam and has made the work of Muslims easy. There are many books from Slafus Salehin Scholars Imams on Aqeedah.
Muslim should have a comprehensive knowledge of Aqeedah. To fulfill this requirement I have chosen to present Aqeedatutahawia with its English translation.

I have chosen the book of Aqeedatutahawiahwritten by Imam of 

Hadith Abu Ja'far Ahmad ibn Muhammad At-Tahaawee, (843 or 853 AD Born- 935 A.D. Died In Hijri 239-321Hijri) because of following reason.

1.   Aqeedatutahawia is an scholary and complete collection and explanation of Quranic Ayats and Ahadiths that are related to muslim beliefs/Aqeedah. 

2.   Tahawi's "Doctrine" (al-`Aqida), very comprehensive and basic text for all times, listing what a Muslim must know and believe and inwardly comprehend. It is considered a source book by all Ahle Sunnat Wal Jamaat scholars. There is consensus among all the leading Islamic scholar including the Muhaddethin and authoritative Scholars of four School of Jurisprudence on the doctrines enumerated in this work, which are entirely derived from the undisputed primary sources of Religion, the Holy Qur'an and the authentic Hadith.

3.   Aqeedah Tahawiyyah is written for students and has been/is part of education curriculum and is one of the perfect book on Aqeedah.

4.   As Aqeedah is derived from Quran and Hadith so it is very important, and it has been written by an undisputed scholar and Imam of Hadith Abu Ja'far Ahmad ibn Muhammad At-Tahaawee, (843 or 853 to 935).

5.   He was the great scholar of Hadith ,has been described in these words by other greats of Islamic History.
Al-Dhahabi said in his Major History of Islam:
"He (Imam Tahawi) was the Faqeeh, the Muhaddith, the Haafidh, one of the elite personalities, and he was reliable, trustworthy, knowledgeable of fiqh and intelligent."
"He was one of the reliable, trustworthy and brilliant scholars of Hadeeth (Haafidh)."

6.   He has not only explained but has also described the limit of explanation at appropriate place and has refrained and warned the muslims not to indulge in those detail that has not been considered important by Hazrat Muhammad Sallallahu Alaihi wasallam and Sahaba Karam Raziallahu Anhu and Salafus Salehinscholars and Imams  of earlier generation of muslims. And it is a fact that many of the muslims including some scholars have forgotten.

7.   This book is accepted by the scholars of Ahl al-Sunna wa al-Jama`a (sunni) of four school of Jurisprudence  (Hanfi,Shafai,Maliki,Hanbali) and contemprory Scholars  including Grand Mufti of Saudi Arab Shaykh Abd al-Aziz ibn Abd Allah ibn Baaz (R.A.).

The quotation of the entire text of Tahawi's "Doctrine," which is considered as the doctrine of Ahl al-Sunna wa al-Jama`a, will be of benefit to the Muslims (May Allah help us) . 
(This English translation along with arabic text is fromhttp://www.central-mosque.com  with  thanks.)

THE DETAIL AQEEDAH (ISLAMIC CREED) FROM

 Aqeedatut Tahawi by

Imam of Hadith Abu Ja'far Ahmad ibn Muhammad At-Tahaawee.(R.A)

TAHAWI'S STATEMENT OF ISLAMIC DOCTRINE (AL-`AQIDA AL-TAHAWIYYA):
بسم الله الرحمن الرحيم
In the Name of Allah, the Merciful, the Compassionate Praise be to Allah, Lord of all the worlds.
.
The great scholar Hujjat al-lslam Abu Ja'far al-Warraq al-Tahawi al-Misri, may Allah have mercy on him, said:
This is a presentation of the beliefs of Ahl al-Sunna wa al-Jama`a, according to the school of the jurists of this religion, may Allah be pleased with them all, and what they believe regarding the fundamentals of the religion and their faith in the Lord of the worlds.
نَقُولُ في تَوْحيدِ اللَّهِ مُعْتَقِدينَ، بـِتَوْفيقِ
We say about Allah's unity, believing by Allah's help that:
إِنَّ اللَّهَ تَعالى وَاحِدٌ لا شَرِيكَ لَهُ،
1. Allah is One, without any partners.
وَلا شَيْءَ مِثْلُهُ،
2. There is nothing like Him.
وَلا شَيْءَ يُعْجِزُهُ،
3. There is nothing that can overwhelm Him.
وَلا إِلهَ غَيْرُهُ،
4. There is no god other than Him.
قَدِيْمٌ بـِلا ابْتِدَاءٍ، دَائِمٌ بـِلا انْتِهَاءٍ،
5. He is the Eternal without a beginning and enduring without end.
لا يَفْنَى وَلا يَبـِيدُ،
6. He will never perish or come to an end.
وَلا يَكُونُ إِلا مَا يُرِيدُ،
7. Nothing happens except what He wills.
لا تَبْلُغُهُ الأَوْهامُ، وَلا تُدْرِكُهُ الأَفْهامُ،
8. No imagination can conceive of Him and no understanding can comprehend Him.
وَلا تُشْبـِهُهُ الأَنامُ
9. He is different from any created being.
حَيٌّ لا يَمُوتُ، قَيُّومٌ لا يَنامُ،
10. He is living and never dies and is eternally active and never sleeps.
خَالِقٌ بـِلا حَاجَةٍ، رَازِقٌ لَهُمْ بـِلا مُؤْنَةٍ،
11. He creates without His being in need to do so and provides for His creation without any effort.
مُمِيتٌ بـِلا مَخَافَةٍ، بَاعِثٌ بـِلا مَشَقَّةٍ.
12. He causes death with no fear and restores to life without difficulty.
مَازالَ بـِصِفَاتِهِ قَدِيماً قَبْلَ خَلْقِهِ. لَمْ يَزْدَدْ بـِكَوْنِهِمْ شَيْئاً لَمْ يَكُنْ قَبْلَهُمْ مِنْ صِفَاتِهِ، وَكَما كَانَ بـِصِفَاتِهِ أَزَلِيَّاً كَذلِكَ لا يَزَالُ عَلَيْهَا أَبَدِيَّاً.