Pages

Showing posts with label Maslaki Problem Solving. Show all posts
Showing posts with label Maslaki Problem Solving. Show all posts

فتوٰی ا ما م الحرمین محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت



مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی

عرض مترجم
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين ولا عدوان إلا على الظالمين والصلاة والسلام على خاتم الأنبياء والمرسلين محمد سيد بني آدم أجمعين وآله الطاهرين وصحابته ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
یہ فتوٰی مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی مملکت عربیہ سعودیہ کے سربراہ کی  حیثیت سے ا ما م الحرمین  فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہے  اورسیکرٹریٹ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے اہتمام سے جاری ہوا ہے۔
اس تفصیلی فتوے میں دراصل ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت اور اس سے جڑے تمام پہلؤں پر علما ء اہل سنت والجماعت کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ فتوٰی ایک ایسے وقت میں  آیا ہےجب کچھ نادان مسلمان ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی  تقلیدکرنےکی مخالفت کر رہے ہیں  اورمسلمانوں میں خلفشار کر رہے ہیں ۔     اس سے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والے مسلمان جو دنیا کےتمام  مسلمانوں میں  لگ بھگ 96 فیصد ہیں    (شیعہ حضرات کو چھوڑ کر ) پریشان ہیں ۔
ائمہ اربعہ کے تقلید کی مخالفت کرنے والے عام مسلمانوں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور ان سے ایک حکمت عملی کے طور پر ایسے سوالات پوچھتے ہیں جس سے ایک کم پڑھا لکھا مسلمان  پریشان ہو جاتا ہے     
جیسےآپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلتے ہیں یا امام ابو حنیفہؒ(یا امام شافعی ؒ ،/امام مالک ؒ /امام احمؒد /) کے دین پر
فوراجواب ملتا ہے:  یقیناً حضرت محمد ؐ کے دین پر۔
اس پر ایک دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے : پھر  آپ اپنے کو حنفی کیوں کہتے  ہیں؟
ایک عام مسلمان جو علم نہیں رکھتا اس سوال سے پریشان ہو جاتا ہے ۔اسکا فائدہ اٹھا کر اس کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کیئے جاتے ہیں ۔
اوپر دیئے گئے سوالوں کا استعمال کرکے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت یہ غلط تصور عوام میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے  کہ اگر آپ  حنفی ہیں تو آپ امام ابو حنیفہ کے دین پر عمل کر رہے ہیں  ،نہ کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
تقلید کی مخالفت والے بعض مششد د لوگ تو تقلید کو حرام تک قرار دے رہے ہیں اور بعض تو کفر اور شرک تک بتا رہے ہیں اور آج کے انٹر نیٹ کے زمانے میں پورے زور شور سے اس کا پرو پیگنڈۃ کر ہے ہیں ۔اللہ  ان نادان مسلمانوں کو  عقل سلیم عطا کرے  اور سلف الصالحین  کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا کرے   ۔
اللہ کی ذات  سے امید ہے کہ امام الحرمین اور مسلمانوں کے اصل مرکز سے جاری ہوا یہ فتوٰ ی نادان مسلمانوں کےپروپیگنڈہ کا موثر جواب ہوگا اور عام مسلمانوں کو شکوک و شبہات سے نکال کر اللہ اور اسکے رسو ل اللہ ﷺکی اطاعت پر جمائے گا ۔امید ہے کہ مسلمانان عالم     اپنا وقت اور صلاحیت فتنہ انگیزی اور خلفشار سے بچا کر دین کی دعوت انسانیت کی فکر اس کی بھلائی اور دین کے دوسرے مثبت کاموں میں صرف کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے

 http://muslimleak.blogspot.in/

اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔




مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی





بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی
مملکت عربیہ سعودیہ
(ڈاکٹر عدنان حکیم کے سوالات کا جواب)

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، میں درودوسلام کہتا ہوں کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جو ہمارے آقا ہیں اور اس کے بندے اور رسول نیز آپ کی آل پر اور تمام اصحاب پر ۔ 

سوال نمبر1۔ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام، اور فقہاء امت کا اجماع حجت شرعیہ ہے یا نہیں؟ اور کیا اجماع تشریع اسلامی کا تیسرا ماخذ ہے یا نہیں ؟ اجماع کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے ؟ اور بلکیہ اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے ؟

جواب۔ باتفاق علماء صحابہ کرام کا اجماع حجتِ شرعیہ ہے اسی طرح تابعین اور فقہا کا اجماع بھی حجت شرعیہ ہے البتہ اس میں داؤد ظاہری نے اختلاف کیا ہے ان کی راے یہ ہے کہ غیر صحابہ کا اجماع حجت شرعیہ نہیں لیکن حجت ہونے کا قول صحیح ہے کیونکہ حجیت اجماع کے دلائل عام ہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہ وغیر صحابہ سب کے اجماع کو شامل ہیں اس صرف صحابہ کرام کے اجماع کو حجت کہنا سینہ زوری ہے ، اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ! کتاب و سنت کے بعد اجماع کو تشریع اسلامی کے مآخذ میں سے تیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے ۔
دلائل حجیت اجماع۔۔۔۔۔ جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے اس پر کتاب و سنت کے بہت سے دلائل ہیں ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔ فرمان خداوندی ہے " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً 
 جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور سبیل المومنین کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلتا ہے ہم اس کو ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرتا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے ۔ (سورہ نساء115)۔
اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کے ترک پر وعید فرمای ہے اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ وارد ہوتی۔ اور اس وعید میں سبیل المومنین کے ترک کو اور مخالفت رسول کو جو حرام ہے جمع نہ کیا جاتا اور جب غیر سبیل المومنین کی اتباع حرام ہے تو سبیل المومنین کی اتباع واجب ہوگی اور اجماعی حکم سبیل المومنین ہے لہذا اس کی اتباع واجب ہے ۔

۔ 2۔۔۔۔۔۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یافرمایا امت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔ (ترمذی) اور
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے کٹا وہ آگ میں پڑا۔ (ترمذی) ان سب احادیث کا اختلاف الفاظ کے باوجود مفہوم ایک ہے ۔
یعنی مجموعی طور پر امت کا خطا سے معصوم ہونا۔ اس سے ثابت ہوا کہ علماء کا اجماع حجت شرعیہ ہے۔ ہمیشہ ان احادیث سے بغیر کسی رد وقدح کے پہلے صحابہ کرام پھر ان کے بعد والے علماء عظام حجیت اجماع کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ تاآنکہ بعد میں مخالفینِ اجماع پیدا ہو گئے۔

منکرین اجماع کا حکم۔۔۔۔ اجماع قطعی کے منکر کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں۔
۔(1)۔ ۔مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر ہے۔
۔(2)۔ مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی حکم کا دین میں سے ہونا امر قطعی ہو جیسے پانچ نمازیں تو اس کا انکار کفر ہے اور اگر اس کا دین میں سے ہونا امر قطعی نہ ہو تو اسکا انکار کفر نہیں۔تاہم اجماع کی مخالفت جایز نہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ 
سوال نمبر 2۔۔۔۔۔۔ قیاس کی بنیاد ظن پر ہے اس جس چیز کی بنیاد ظن پر ہو وہ ظنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ظن کی اتباع سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس چیز کے پیچھے مت چل جسکا تجھے علم نہیں" (الاسراء۔ 36)لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباعِ ظن ہے"۔

جواب۔۔۔۔۔ قیاس فقہ اسلامی کے ماخذ میں سے چوتھا ماخذ ہے اور اس کی حجیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اس پر صحابہ کرام، تابعین اور فقہا امت نے قرنہا قرن عمل کیا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک قیاس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکاروں نے اس کا انکار کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ہے ، ان کے دلایل میں سے ایک دلیل ہوی ہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ۔ علماء نے ان کے دلایل کے جوابات بھی دیے ہیں ، ہم مختصر طور پر بعض جواب ذکر کرتے ہیں ۔ اور اگر آپ کو مزید وسعت درکار ہو تو کتب اصول فقہ کی طرف مراجعت کیجیے۔ مثلاً علامہ جوینیؒ کیالبرھان، امام رازیؒ کی المحصول، الاحکام للآمدییؒ، شروح مختصر ابن حاجبؒ، اصول سرخسیؒ، اور عبدالعزیز بخاریؒ کی کشف الاسرار ان کتابوں میں منکرین قیاس کا تفصیلی رد ہے۔ بہرکیف وہ آیات جن میں اتباع ظن سے نہی کی گئی ہے، ان کا قیاس شرعی سے کوئی تعلق نہیں نہ اس پر منطبق ہوتی ہیں کیونکہ ان آیات میں چیز سے نہی کی گئی ہے وہ ہے ۔ عقائد میں ظن کی اتباع۔ رہے احکام عملیہ سو ان کے اکثر دلائل ظنی ہیں اگر ہم اس شبہ کا اعتبار کر لیں تو ہمیں وہ تمام دلائلِ شرعیہ ترک کرنے پڑیں گے جو ظنی الدالات ہیں اور یہ باطل ہے ۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے  
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الإسراء: 36 "سے استدلال سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود نہی ہے اس بات سے کہ کوئی انسان محلِ یقین میں امکانِ تیقن کے باوجود حصولِ یقین سے انحراف کر کے ظن و تخمین پر اعتماد کرے پس یہ نہی قیاس شرعی کو شامل نہیں کیونکہ فرع واصل کے درمیان علت جامعہ پاےئےجانے کی وجہ سے حکم کے اعتباد سے فرع کو اصل کے ساتھ لاحق کرنا اس حکم کے قبیل سے نہیں جس سے آیت میں منع کیا گیا ہے ، یعنی بغٰر علم کے قول کرنا، کیونکہ مجتہد اسی چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک راجح ہوتی ہے اور اسکا اجتہاد اس تک پہنچتا ہے۔

سوال نمبر 3۔۔۔۔۔ قیاس شرعی کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء نے قیاس کی حجیت کو کتاب و سنت اور اجماع سے نیز عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے، ہم ان میں سے بعض ذکر کرتے ہیں اور اگر مزید دلائل معلوم کرنے کا ارادہ ہو تو ان کتب اصول کی طرف مراجعت کی جاے جن کا میں نے منکرین قیاس کے شبہات کے رد میں پہلے ذکر کیا ہے۔ کتاب اللہ سے دلیل فرمان الہیٰ ہے۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ ِلأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنْ اللَّهِ فَأَتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمْ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ (الحشر: 2
اللہ وہ ہے جس نے اہلِ کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ پہلے حشر کے وقت تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے سو ان پر اللہ کا عذاب ایسے طور پر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا وہ گراتے تھے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنین کے ہاتھوں، پس عبرت پکڑو اے ارباب بصیرت محل استدلال اللہ تعالیٰ کا فرمانفاعتبروایااولی الابصار ہے ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اس عذاب کی خبر دی جو بنو نصیر پر نازل ہوا تو ان کو حکم دیا کہ وہ عبرت پکڑیں اور الاعتبار العبور سے مشتق ہے ۔ اور العبور کا معنی ہے المجاوزۃ یعنی گذرنا۔ مقصود یہ ہے کہ اپنے نفوس کو ان پر قیاس کرو کیونکہ تم بھی ان جیسے بشر ہو اگر تم ان جیسے کام کرو گے تو تمہارے اوپر بھی وہی عذاب اتر پڑے گا جو ان پر اترا۔ پس یہ آیت تمام انواعِ اعتبار کو شامل ہے اور جب قیاس میں فرع واصل کے درمیان موجود علت جامعہ کی وجہ سے فرع سے اصل کی طرف مجاوزت ہوتی ہے تو یہ بھی اس اعتبار کے انواع میں داخل ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور
 سنت سے دلیل یہ ہے کہ
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کویمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو دریافت فرمایا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ ۔ فرمایا ! اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر آپ کو سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر؟ کہنے لگے میں اپنی رائےسے اجتہاد کروں گا۔ اور اسمیں کوتاہی نہ کروں گا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس پر اللہ کا شکر ہے جس پر اللہ کا رسول راضی ہے۔ (ابوداود۔ ترمذی، مسند احمد، ابوداود طیالسی) اور اس کی بہت سے محققین نے تصحیح کی ہے ) وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کتاب و سنت سے اجتہاد کی طرف منتقل ہونے کو درست قراردیا ہے اور قیاس بھی اجتہاد کے انواع میں سے ایک نوع ہے۔ علاوہ ازیں عمل بالقیاس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور ہر وہ امر جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو وہ حق ہے اس کا التزام واجب ہے،

اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اپنا مشہور حکمامہ تحریری طور پر بھیجا کہ اشباہ و نظایر کو پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجیے (سنن کبریٰ بیہقی، الفقیہ والمتفقہ للخطیب)
 عقلی دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص محدود اور متناہی ہیں اور لوگوں کو درپیش مسایل غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر زمان و مکان میں نےء مسایل ظہور پذیر ہوتے ہیں سو اگر ان کے احکام معلوم کرنے کے لیے کتاب و سنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی کے باقی رہ جائیں  گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے اور تمام نے پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے: ہر ہر واقعہ کے لیے شریعت میں حکم موجود ہے اور مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں۔

سوال نمبر 4۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے جو درست اجتہاد کرے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو غلط اجتہاد کرے اس کے لے ایک اجر ہے۔

جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد حاکم یا قاضی یا عالم مجتہدہے ۔ جب اس نے اجتہاد کیا اور اپنی ممکنہ استطاعت کسی مسلہ کے حکم معلوم کرنے میں صرف اس کے باوجود اس سے حکم میں غلطی ہو گئی تو وہ گناہ گار نہ ہو گا بلکہ اپنے اجتہاد پر ماجور ہو گا اور اگر اس نے حق کو پالیا تو اس کے لیے دو گنا اجر ہو گا ایک اجر اجتہاد پر دوسرا صابت حق پر: بشرطیکہ وہ شرائط اجتہاد کا علم و حامل ہو اور اگر شرائط اجتہاد کا عالم و حامل نہ ہو اور محص تکلف کر کے اجتہاد کرے اور علم کا دعویٰ کرے تو یہ حدیث اسکو شامل نہیں :
سوال نمبر 5۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کی آراء کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہوں تو کیا وہ قانون شرعی ہو جاتا ہے ؟ کیا اس کی اتباع واجب ہے ؟ یا اس کی مخالفت جائز ہے ؟

جواب۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہو جائیں تو اس کو اجماع شمار کیا جاتا ہے جس کی مخالفت ناجائز اور اتباع واجب ہے اور جو اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے وہ اس وعید کی زد میں آتا ہے جس کو ہم نے حجیت اجماع کے دلائل میں ذکر کیا ہے :۔
سوال نمبر 6۔۔۔۔۔۔ کیا احکامِ شرعیہ کے لیے قیاس کا چوتھے ماخذ کے طور پر اعتبار کیا جاتا ہے ؟

جواب۔۔۔۔۔کتاب و سنت اور اجماع کے بعد احکامِ شرعیہ معلوم کرنے کے لیے قیاس چوتھا ماخذ ہے۔ اس کے ذریعے احکامِ شرعیہ معلوم کئے جاتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں امام بخاریؒ نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کسی کے لیے بچاؤ نہیں مگر کتاب اللہ میں یا سنت نبویہ میں یا علماء کے اجماع میں جبکہ ان میں حکم موجود ہو پس اگر ان میں حکم موجود نہ ہو تو پھر قیاس ہے ۔ اس پر امام بخاری نے ترجمۃ الباب قائم کیا باب الاحکام التی تعرف بادلایل وکیف معنی الدلالۃ و تفسیر ھا۔ یعنی یہ باب ہے ان احکام کے بیان میں جو دلایل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور دلالت کیسے ہوتی ہے اور اس کی کیا تفسیر ہے ؟
(احکام القرآن 7۔172)

سوال نمبر7۔۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ اگر قائل کی مراد "انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین" والا قیاس ہے تو قائل کا یہ قول درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا اور غلط قیاس کیا اور حکماء نے کہا ہے کہ اللہ کے دشمن نے غلط کہا کیونکہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی حالانکہ وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں کہ وہ دونوں بے جان مخلوق ہیں۔ اور اگر قائل کا مقصد قیاس شرعی کا انکار و رد ہے اور اس پر طعن! تو یہ نا جایز ہے، کیونکہ ماہرین علماء کا اجماع ہے اخذ بالقیاس پر: اور اجماع مخالفت حرام، جبکہ شاذ اقوال کا کوی اعتبار نہیں۔
سوال نمبر8۔۔۔۔۔ اسلامی شریعت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید (یعنی تقلید شخصی) کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ مسئلہ تقلید کے اعتبار سے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔
۔(ایک)۔ مجتہدین یعنی وہ علماء جو دلائل سے مسائل مستنبط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ ان پر اجتہاد واجب ہے ۔

(
دو) عوام، یعنی وہ لوگ جو اجتہاد کی قدرت و اہلیت نہیں رکھتے ان کے لیے آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے۔ اور تقلید سے مراد یہ ہے کہ فقہی مسائل میں دلیل جانے بغیر مجتہد کے قول کی اتباع کرنا۔ اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الأنبياء:
پس پوچھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے۔ (الانبیاء-7) اور
 رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان زخمی صحابی کے مشہور واقعہ میں کہ " جب وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا: عاجز آدمی کے لیے بجز سوال کے کسی بات میں شفا نہیں"( ابوداؤد۔ ابن ماجہ، احمد ، حاکم، طبرانی)اور عامۃ الناس کو اجتہاد کا مکلف بنانا متعدذ ہے، کیونکہ اجتہاد کا تقاضا ہے کہ مجتہد میں خاص ذہنی صلاحیت ہو۔ علم میں پختگی ہو اور لوگوں کے احوال اور وقایع کی معرفت اور طلب علم اور اس پر صبر کی عادت اور اگر سب لوگ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ان کے حصول میں مشغول ہو جائیں تو کاروبار معشیت باطل ہو جائیں گے اور نظام دنیا درہم برہم ہو جاے گا ۔

سوال نمبر 9۔۔۔۔۔۔ کیا یہ آیت کریمہ "اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ " آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید پر منطبق ہوتی ہے یا نہیں ؟

جواب
۔۔۔۔۔ آیت سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو ارباب کی طرح بنالیا کیونکہ انہوں نے ان کی ہر چیز میں اطاعت کی چناچہ امام ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں میں نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آیا کہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی آپ نے فرمایا اے عدی اس کو اتار پھینک۔ یہ بت ہے اور میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے سورہ براءۃ کی یہ آیت تلاوت کی اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم(توبہ۔31) پھر فرمایا خوب سن لو وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے یہ اس کو حلال سمجھتے اور جب وہ ان پر کویئ چیز حرام کرتے تو یہ اس کو حرام سمجھتے۔ سو کہاں آئمہ اربعہ اور کہاںوہ احبار جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اللہ کی حلال ٹھہرائ ہوئ چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں ۔ اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ائمہ اعلام کو ان احبار جیسا سمجھا جائے کیونکہ ان ائمہ نے شریعت اسلامیہ کی خدمت میں اپنی پوری قوت صرف کی اور اس میں اپنی زندگیاں لگا دیں ان کے درمیان جو مسائل میں اختلاف ہے وہ درحقیقت اختلاف اجتہادات کی وجہ سے ہے ۔ ان کا یہ اختلاف باعث اجر ہے ۔ اور یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت ائمہ اربعہ کو بھی شامل ہے جھوٹ ہے ، بہتان ہے ۔ اسکا سبب جہالت عظیمہ ہے ۔
سوال نمبر 10۔۔۔۔۔۔ کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید شرک و کفر کے زمرہ میں داخل ہے ؟؟
جواب۔۔۔۔۔ ائمہ اربعہ کی تقلید غیر مجتہد کے لیے جائز ہے اس کا کفر و شرک کے ساتھ کویئی تعلق نہں آئمہ اربعہ حق اور دین کے داعی ہیں ۔ انہوں نے اپنے نفوس کو علم شریعت کے سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کر دیا۔ حتیٰ کہ اس علم کا بڑا حصہ پایا۔ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کی قدرت و صلاحیت پیدا ہو گیء۔ سو عامۃ المسلمین جو ان کے مقلد ہیں وہ راہِ ہدایت اور راہِ نجات پر ہیں انشاللہ۔

سوال نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مقلدین شرک اور کفر کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ عقیدہ غلط ہے اس کی قطعاً کوی بنیاد نہیں اور یہ عقیدہ دلالت کرتا ہے شریعت اسلامیہ سے بڑی جہالت پر کیونکہ شریعت اسلامیہ نے کفروایمان شرک وتوحید کے درمیان فرق کیا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ دین کا اتنا حصہ ضرور سیکھے جس کے ساتھ وہ شرک و کفر اور اجتہاد کے درمیان فرق کر سکے۔

سوال نمبر 12۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کے محتاج ہیں یا نہیں؟ اور جس مسئلہ میں نص نہ ہو اس میں تقلید گمراہی ہے یا نہیں ؟۔
جواب۔۔۔۔۔۔ اسکا جواب ویسا ہی ہے جیسا ہم نے پہلے تفصیلاً لکھا ہے کہ غیر مجتہد محتاج ہے مجتہد کی تقلید کی طرف اور مجتہد کی تقلید خواہ غیر منصوص مسئلہ میں ہو یا نص کے سمجھنے میں ہو جائزہے یہ تقلید گمراہی کی طرف مفضی نہیں ہے بلکہ اسکا گمراہی سے کوی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔  


Islamic Aqeedah Basic Summary of Muslim Faith Arkanal Imaan Six Kalima Arabi text English Transliteration Translatio


(NOTE:On searching internet we found that this series is among the best Aqeedah education programme Article. So we decided to post in this blog.Taken with Jazakallahu Khair from here 
AQEEDAH MEANING?
There is no doubt that In deen the foremost thing is Aqeedah.The Linguistic Meaning of Aqeedah: Literally, the word `aqidah is derived from the triconsonantal root"`A-Q-D",(aqada) which means to tie or knot. al-Aqad, which is to 'tie something (firmly). 

Importance of Aqeedah in Islam: 
Correct Aqeeda is the most important thing in islam. It denotes those matters over which Muslims hold conviction. It is the core and base of all action. It is the belief (Yaqeen) that gives the capability of good deeds. It is what a person takes as a religion . It is said, if someone is having a good Aqeedah' meaning, have right beliefs. Aqeedah is an action of the heart, which is to believe and affirm something in the heart. It is also called as Iman or articles of Iman or Article of faith. and it has been called as article of faith.
Some Other Terms
Emaan/Imaan  (Faith/Creed) is Synonymous to Aqeedah
 Yaqeen   (Faith) is also sometimes used as synonymously.
 (Please dont go after terminology .Without any question on word aqeedah which is right term but it is also a fact that Aqeedah term has not been used in the quran and hadith,
 Actually Emaan is the term that has been used in the Hadith of Jibraeel that articulate the Islamic      faith.......In the hadith of Gabriel in Bukhari , the Prophet explained the pillars of this faith in which every human must believe, when he was asked, "What is eemaan?", he said, "To believe in Allaah and His angels and His books and His messengers and the Last Day and predestination of good and evil."
(Sahih Bukhari)

Six Articles of 

Islamic Aqeedah(Creed

There are six believes of Islamic Aqeedah, called as six article of faith (called arkān al-īmān) and these are

Six Articles of Islamic Aqeedah
.
1.   Belief in Allah, the one and only one worthy of all worship (Oneness of the Worship), creator, sustainer etc and all powerful for everything (Oneness of the Lordship) with all his good name and attributes.                                       (Tawhid)
2.   Belief in His angels                            (Malāika)
3.   Belief in His Divine Books sent on Prophets from time to time.                                                                                              (Kutub)
4.   Belief in His Messengers, which were sent to Mankind from time to time.                                         (Rusul)
5.   Belief in the Day of Judgment and in the Resurrection (life after death).                                                   (Yawm al-qiyāmah)
6.   Belief  in Destiny (Fate)                         (Qadar).

(Some books have separated life after death and Day of Judgment as separate number and it makes total number to seven)

These six articles of belief has been described in clear words in Quranic Ayats and has also been sum up in the Hadith of Jibraeel that is in Bukhari and Muslim shareef both.

Allah says in Surah Nisa
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا (النساء: 136
[4:136]
O you who believe, do believe in Allah and His Messenger and in the Book He has revealed to His Messenger and in the Books He has revealed earlier. Whoever disbelieves in Allah and His angels and His Books and His Messengers and the Last Day has indeed gone far astray.


لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ    البقرة: 177

Hadith of Jibraeel

Sahih Bukhari Volume 1, Book 2, Number 48

حدثنا مسدد،‏‏‏‏ قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم،‏‏‏‏ أخبرنا أبو حيان التيمي،‏‏‏‏ عن أبي زرعة،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس،‏‏‏‏ فأتاه جبريل فقال ما الإيمان قال ‏"‏ الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله،‏‏‏‏ وتؤمن بالبعث ‏"‏‏.‏ قال ما الإسلام قال ‏"‏ الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به،‏‏‏‏ وتقيم الصلاة،‏‏‏‏ وتؤدي الزكاة المفروضة،‏‏‏‏ وتصوم رمضان ‏"‏‏.‏ قال ما الإحسان قال ‏"‏ أن تعبد الله كأنك تراه،‏‏‏‏ فإن لم تكن تراه فإنه يراك ‏"‏‏.‏ قال متى الساعة قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل،‏‏‏‏ وسأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها،‏‏‏‏ وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان،‏‏‏‏ في خمس لا يعلمهن إلا الله ‏"‏‏.‏ ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم ‏ {‏ إن الله عنده علم الساعة‏}‏ الآية‏.‏ ثم أدبر فقال ‏"‏ ردوه ‏"‏‏.‏ فلم يروا شيئا‏.‏ فقال ‏"‏ هذا جبريل جاء يعلم الناس دينهم ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله جعل ذلك كله من الإيمان‏.

 

Narrated Abu Huraira Raziallahu Anhu:One day while the Prophet was sitting in the company of some people, (The angel) Gabriel came and asked,
"What is Emaan (Faith,Aqeedah)?"
Allah's Apostle replied, 'Faith is to believe in Allah, His angels, (the) meeting with Him, His Apostles, and to believe in Resurrection." Then he further asked,
"What is Islam?"
Allah's Apostle replied, "To worship Allah Alone and none else, to offer prayers perfectly to pay the compulsory charity (Zakat) and to observe fasts during the month of Ramadan." Then he further asked,
"What is Ihsan (perfection)?"
Allah's Apostle replied, "To worship Allah as if you see Him, and if you cannot achieve this state of devotion then you must consider that He is looking at you." Then he further asked,
"When will the Hour be established?"
Allah's Apostle replied, "The answerer has no better knowledge than the questioner. But I will inform you about its portents.
1. When a slave (lady) gives birth to her master.
2. When the shepherds of black camels start boasting and competing with others in the construction of higher buildings. And the Hour is one of five things which nobody knows except Allah.
The Prophet then recited: "Verily, with Allah (Alone) is the knowledge of the Hour--." (31. 34) Then that man (Gabriel) left and the Prophet asked his companions to call him back, but they could not see him. Then the Prophet said, "That was Gabriel who came to teach the people their religion." Abu 'Abdullah said: He (the Prophet) considered all that as a part of faith.

Detail of these Six Articles of Aqeedah are present in different verses  of quran and Hadith.
For example for explanation of tawheed there are verses like …. 
رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (مريم: 65

اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: 255

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (الحشر:
 
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الحشر: 23).
 
هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر: 24).
 

For easy understanding of Muslims these has been  by codified and has been put together by Salafus Salehin Scholars of Sunnah in the form of Book.

Kalima
Kalima (Arabic) literal meaning is word
The Six Kalimahs (Arabic ةكلم ‎, kalimah, means "word") has been codified by Scholars of Islam to encompass the faith and Fundamental of Islam for easy understanding.

Sources of these Kalima are verses of Quran and  Hadith 
           These have been compiled from various Verses of The Holy Quran and Sahih Hadith.  
Example: 
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ (محمد: 19
 
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: 29
وَلَوْلاَ إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ الكهف: 39).
فلما علا عليها رجل نادى فرفع صوته لا إله إلا الله والله أكبر‏. 

[Note: These kalimahs were compiled and put together for people to memorize and learn the fundamentals of Islam. These Six Kalimas are not present together at one place in any particular verse of Quran or Hadith, Rather they are present as part of different verse of The Holy Quran and authentic Ahadith. And these have been accepted by all the salafus salehin Scholar of Islam.]

Some of the Sources of these Kalima from Hadith has 

been referenced in this link.

Question: 11034
   Pakistan
Assalam-o-alaikum, Respected Sir, We learn and recite six Kalimas(Tayyab, Shahadat, Tamjeed, Tauheed, Astaghfar, Raddi-kuffr) right from our childhood. All the mosques and Ulamas recommend these 6 Kalimas. I want to know the origin of these 6 Kalimas? Are these found in Qur'an or Hadith and where are they mentioned. Please tell me the reference. Jazak ALLAH
  Answer: 11034
  Feb 28,2009
(Fatwa: 344/236=L/1430)

These six kalimahs are proved from hadith:
Kalimah Tayyibah:
لما خلق اللہ جنۃ عدن وھی أول ما خلق اللہ، قال لھا: تکلمي، قالت: لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ (کنز العمال 1:43)
Kalimah Shahadah:
أشھد ان لا إلہ إلا اللہ وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ (البخاری 1:115)
Kalimah Tamjeed:
سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ واللہ اکبر، وفي روایۃ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ العلي العظیم (مسلم 2:345)
Kalimah Tauheed:
من دخل السوق فقال: لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ والحمد، یحیي ویمیت وھو علی کل شئ قدیر (ترمذي 2:181)
While Kalimah Istighfar is mentioned in Bukhari 2:933, and 
Kalimah Radd-e-Kufr is mentioned in Musnad Imam Ahmad 5:451.
Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best
Darul Ifta,
Darul Uloom Deoband

These are recorded in various books of knowledge and are recited (and memorized) by Muslim across the globe. In Islamic world parents make it memorize to their children at very small age. There meaning is very established. The Tawheed and greatness of Allah is strongly reflected in these Kalimah. TheKalimahs came is to facilitate the easy memorising and learning of Aqeedah (beliefs). If one read it with sincerity knowing its translation it gives a strong feeling of faith and increase imaan on Allah.
The six statements are very much educational and helpful for a Muslim to understand Faith.
1.   The first two are basically declaration of faith, as a Muslim,
2.   The next two describes the Tawheed of Allah and his greatness and  are very popular words of remembrance (Azkar) of Allah
3.    The next two glorify Allah his greatness, Nullify Shirk and also are very nice supplications for God's forgiveness. All or parts of these statements can be found in the Qur'an or the Hadith.

Listed below are the Six Kalmas.


1.Kalimah Tay-Yibah (The Good Word) OrKalimah 

Tawheed (The Creed Of The Oneness Of Allah). 


لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
LA ILAHA IL-LAL-LAHU MUHAMMADUR-RASULUL-LAH.

(Trans: There is no God but Allah, Muhammad is the Messenger of Allah)
This KALIMAH TAY-YIBAH (the good word) orKALIMAH TAWHEED (the creed of the Oneness of Allah) is the basic creed of Islam. If someone reads the basic creed with heart. He/she becomes Muslim. This includes all other Kalima, and all explanation are inherently included in it.

2.Kalimah Shahadah (The word of Testimony.)

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
ASH-HADU A(N)L-LAILAHA IL-LAL-LAHU WA ASH-HADU AN-NA MUHAMM-MADAN'ABDUHU WA RASULUH.

 (I bear testimony that none is worthy of worship but Allah, and I testify that Muhammad is the servant and Messenger of Allah.)

3Kalima Tamjeed (The Word of Glorification of Allah)

سُبْحَان اللهِ وَا

لْحَمْدُلِلّهِ وَلا إِلهَ إِلّااللّهُ وَاللّهُ أكْبَرُ وَلا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْم 

Subhan Allahu, wal Hamdu lillahi, wa la illaha ilAllahu, wallahu Akbar. wa La hawla wa la quwwata illa billah-al 'alii-al 'adheem 

English Translation: 

Glory be to Allah and Praise to Allah, and there is no God But Allah, and Allah is the Greatest. And there is no Might or Power except with Allah.

4.Kalimah Tawheed (The word of Oneness of Allah)
لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ والحمد، یحیي ویمیت وھو علی کل شئ قدیر 

La ilaha illAllahu Wahdahu La Shareeka lahu, lahulmulk, wa lahulhamd, yuhyee wa yumeet, wa huwa hayy la yumoot abadan abada Dhul Jalaali waal Ikram beyadihi alkhayr, wa huwa 'ala kulli Shay'in Qadeer

English Translation: 

(There is) none worthy of worship except Allah. He is only One. (There is) no partners for Him. For Him (is) the Kingdom. And for Him (is) the Praise. He gives life and causes death. And He (is) Alive. He will not die, never, ever. Possessor of Majesty and Reverence. In His hand (is) the goodness. And He (is) the goodness. And He (is) on everything powerful.)

5.Kalimah Istighfar (The word Ishtagfarmeans Forgiveness, Penitence)
astaghfiru-llāha rabbī min kulli dhanbin adhnabtuhu amadan aw khaā an sirran  wa alāniyyatan wa atūbu ilayhi min adh-dhanbi-lladhī a lamu wa min adh-dhanbi-lladhī lā a lamu innaka anta allāmu-l-ghuyūbi wa sattāru l-uyūbi wa ghaffāru dh-dhunūbi wa lāawla wa lā quwwata illā bi-llāhi-l-alīyyi-l-aīm.
English Translation:
I seek forgiveness from Allah, my Lord, from every sin I committed knowingly or unknowingly, secretly or openly, and I turn towards Him from the sin that I know and from the sin that I do not know. Certainly You, You (are) the knower of the hidden things and the Concealer (of) the mistakes and the Forgiver (of) the sins. And (there is) no power and no strength except from Allah, the Most High, the Most Great.
6.Kalima Rud-E-Kufr (The word Rud-e-Kufrmeans Rejecting the Disbelief)
Allaahumma inniy a’oodhu bika min an ushrika bika shay-an wa ana a’alamu bihi wa astaghfiruka lima laa a’alamu bih. Tubtu anhu wa tabarratu minal kufri wash-shirki wal kizbi wal ma’aasi kullihaa aslamtu wa aamantu wa aqoolu laa ilaaha illallaahu Muhammadur rasoolullah 
English Translation:
O Allah! Certainly I seek protection with You from, that I associate partner with You anything and I know it. And I seek forgiveness from You for that I do not know it. I repended from it and I made myself free from disbelief and polytheism and the falsehood and the back-biting and the innovation and the tell-tales and the bad deeds and the blame and the disobedience, all of them. And I submit and I say (there is) none worthy of worship except Allah, Muhammad is the Messenger of Allah.


Aamantu.(I Believe…)
Scholars of Islam has given a short formula of creed which summarises the articles of faith, called the Āmantu (“I believe”). 
IMAN-E-MUJMAL (The Summary Declaration of Faith)
IMAN-E-MUFASSIL (The Detailed Declaration of Faith)
Iman Mujmal (Iman in brief)
AMANTUBIL-LAHI KAMA HUWA BIASMA'IHI WA SIFATIHI WA QABILTU JAMI'A AHKAMIHI.
Translation:
(I affirm my faith in Allah as He is with all His Names and Attributes and I accept all of His Commands.)

Iman Mufassal (Iman in detail)?


AMANTU BIL-LAHI WA MALA'IKATIHI WA KUTUBIHI WA RUSULIHI WALYAUKIL-AKHIR' WAL-QADRI KHAIRIHI WA SHAR-RIHI MINAL-LAHI TA'ALA WAL-BA'THI, BA'DAL-MAUT.

Translation:

I affirm my faith in Allah, His angels, His Books, His Messengers, the day of judgment, in that the fate good and bad is predetermined by Allah and in coming to life after death (resurrection).
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>
(NOTE:
On searching internet we found that this series is among the best Aqeedah education programme Article. So we decided to post in this blog.Taken with Jazakallahu Khair from here