Pages

فتوٰی ا ما م الحرمین محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت



مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی

عرض مترجم
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين ولا عدوان إلا على الظالمين والصلاة والسلام على خاتم الأنبياء والمرسلين محمد سيد بني آدم أجمعين وآله الطاهرين وصحابته ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
یہ فتوٰی مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی مملکت عربیہ سعودیہ کے سربراہ کی  حیثیت سے ا ما م الحرمین  فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل امور مسجد حرام و مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہے  اورسیکرٹریٹ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے اہتمام سے جاری ہوا ہے۔
اس تفصیلی فتوے میں دراصل ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت اور اس سے جڑے تمام پہلؤں پر علما ء اہل سنت والجماعت کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ فتوٰی ایک ایسے وقت میں  آیا ہےجب کچھ نادان مسلمان ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی  تقلیدکرنےکی مخالفت کر رہے ہیں  اورمسلمانوں میں خلفشار کر رہے ہیں ۔     اس سے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والے مسلمان جو دنیا کےتمام  مسلمانوں میں  لگ بھگ 96 فیصد ہیں    (شیعہ حضرات کو چھوڑ کر ) پریشان ہیں ۔
ائمہ اربعہ کے تقلید کی مخالفت کرنے والے عام مسلمانوں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور ان سے ایک حکمت عملی کے طور پر ایسے سوالات پوچھتے ہیں جس سے ایک کم پڑھا لکھا مسلمان  پریشان ہو جاتا ہے     
جیسےآپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلتے ہیں یا امام ابو حنیفہؒ(یا امام شافعی ؒ ،/امام مالک ؒ /امام احمؒد /) کے دین پر
فوراجواب ملتا ہے:  یقیناً حضرت محمد ؐ کے دین پر۔
اس پر ایک دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے : پھر  آپ اپنے کو حنفی کیوں کہتے  ہیں؟
ایک عام مسلمان جو علم نہیں رکھتا اس سوال سے پریشان ہو جاتا ہے ۔اسکا فائدہ اٹھا کر اس کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کیئے جاتے ہیں ۔
اوپر دیئے گئے سوالوں کا استعمال کرکے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت یہ غلط تصور عوام میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے  کہ اگر آپ  حنفی ہیں تو آپ امام ابو حنیفہ کے دین پر عمل کر رہے ہیں  ،نہ کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
تقلید کی مخالفت والے بعض مششد د لوگ تو تقلید کو حرام تک قرار دے رہے ہیں اور بعض تو کفر اور شرک تک بتا رہے ہیں اور آج کے انٹر نیٹ کے زمانے میں پورے زور شور سے اس کا پرو پیگنڈۃ کر ہے ہیں ۔اللہ  ان نادان مسلمانوں کو  عقل سلیم عطا کرے  اور سلف الصالحین  کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا کرے   ۔
اللہ کی ذات  سے امید ہے کہ امام الحرمین اور مسلمانوں کے اصل مرکز سے جاری ہوا یہ فتوٰ ی نادان مسلمانوں کےپروپیگنڈہ کا موثر جواب ہوگا اور عام مسلمانوں کو شکوک و شبہات سے نکال کر اللہ اور اسکے رسو ل اللہ ﷺکی اطاعت پر جمائے گا ۔امید ہے کہ مسلمانان عالم     اپنا وقت اور صلاحیت فتنہ انگیزی اور خلفشار سے بچا کر دین کی دعوت انسانیت کی فکر اس کی بھلائی اور دین کے دوسرے مثبت کاموں میں صرف کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے

 http://muslimleak.blogspot.in/

اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔




مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السُبیل سربراہ مسجد حرام و مسجد نبوی





بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد نبوی
مملکت عربیہ سعودیہ
(ڈاکٹر عدنان حکیم کے سوالات کا جواب)

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، میں درودوسلام کہتا ہوں کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جو ہمارے آقا ہیں اور اس کے بندے اور رسول نیز آپ کی آل پر اور تمام اصحاب پر ۔ 

سوال نمبر1۔ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام، اور فقہاء امت کا اجماع حجت شرعیہ ہے یا نہیں؟ اور کیا اجماع تشریع اسلامی کا تیسرا ماخذ ہے یا نہیں ؟ اجماع کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے ؟ اور بلکیہ اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے ؟

جواب۔ باتفاق علماء صحابہ کرام کا اجماع حجتِ شرعیہ ہے اسی طرح تابعین اور فقہا کا اجماع بھی حجت شرعیہ ہے البتہ اس میں داؤد ظاہری نے اختلاف کیا ہے ان کی راے یہ ہے کہ غیر صحابہ کا اجماع حجت شرعیہ نہیں لیکن حجت ہونے کا قول صحیح ہے کیونکہ حجیت اجماع کے دلائل عام ہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہ وغیر صحابہ سب کے اجماع کو شامل ہیں اس صرف صحابہ کرام کے اجماع کو حجت کہنا سینہ زوری ہے ، اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ! کتاب و سنت کے بعد اجماع کو تشریع اسلامی کے مآخذ میں سے تیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے ۔
دلائل حجیت اجماع۔۔۔۔۔ جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے اس پر کتاب و سنت کے بہت سے دلائل ہیں ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔ فرمان خداوندی ہے " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً 
 جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور سبیل المومنین کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلتا ہے ہم اس کو ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرتا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے ۔ (سورہ نساء115)۔
اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کے ترک پر وعید فرمای ہے اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ وارد ہوتی۔ اور اس وعید میں سبیل المومنین کے ترک کو اور مخالفت رسول کو جو حرام ہے جمع نہ کیا جاتا اور جب غیر سبیل المومنین کی اتباع حرام ہے تو سبیل المومنین کی اتباع واجب ہوگی اور اجماعی حکم سبیل المومنین ہے لہذا اس کی اتباع واجب ہے ۔

۔ 2۔۔۔۔۔۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یافرمایا امت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔ (ترمذی) اور
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے کٹا وہ آگ میں پڑا۔ (ترمذی) ان سب احادیث کا اختلاف الفاظ کے باوجود مفہوم ایک ہے ۔
یعنی مجموعی طور پر امت کا خطا سے معصوم ہونا۔ اس سے ثابت ہوا کہ علماء کا اجماع حجت شرعیہ ہے۔ ہمیشہ ان احادیث سے بغیر کسی رد وقدح کے پہلے صحابہ کرام پھر ان کے بعد والے علماء عظام حجیت اجماع کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ تاآنکہ بعد میں مخالفینِ اجماع پیدا ہو گئے۔

منکرین اجماع کا حکم۔۔۔۔ اجماع قطعی کے منکر کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں۔
۔(1)۔ ۔مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر ہے۔
۔(2)۔ مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی حکم کا دین میں سے ہونا امر قطعی ہو جیسے پانچ نمازیں تو اس کا انکار کفر ہے اور اگر اس کا دین میں سے ہونا امر قطعی نہ ہو تو اسکا انکار کفر نہیں۔تاہم اجماع کی مخالفت جایز نہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ 
سوال نمبر 2۔۔۔۔۔۔ قیاس کی بنیاد ظن پر ہے اس جس چیز کی بنیاد ظن پر ہو وہ ظنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ظن کی اتباع سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس چیز کے پیچھے مت چل جسکا تجھے علم نہیں" (الاسراء۔ 36)لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباعِ ظن ہے"۔

جواب۔۔۔۔۔ قیاس فقہ اسلامی کے ماخذ میں سے چوتھا ماخذ ہے اور اس کی حجیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اس پر صحابہ کرام، تابعین اور فقہا امت نے قرنہا قرن عمل کیا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک قیاس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکاروں نے اس کا انکار کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ہے ، ان کے دلایل میں سے ایک دلیل ہوی ہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ۔ علماء نے ان کے دلایل کے جوابات بھی دیے ہیں ، ہم مختصر طور پر بعض جواب ذکر کرتے ہیں ۔ اور اگر آپ کو مزید وسعت درکار ہو تو کتب اصول فقہ کی طرف مراجعت کیجیے۔ مثلاً علامہ جوینیؒ کیالبرھان، امام رازیؒ کی المحصول، الاحکام للآمدییؒ، شروح مختصر ابن حاجبؒ، اصول سرخسیؒ، اور عبدالعزیز بخاریؒ کی کشف الاسرار ان کتابوں میں منکرین قیاس کا تفصیلی رد ہے۔ بہرکیف وہ آیات جن میں اتباع ظن سے نہی کی گئی ہے، ان کا قیاس شرعی سے کوئی تعلق نہیں نہ اس پر منطبق ہوتی ہیں کیونکہ ان آیات میں چیز سے نہی کی گئی ہے وہ ہے ۔ عقائد میں ظن کی اتباع۔ رہے احکام عملیہ سو ان کے اکثر دلائل ظنی ہیں اگر ہم اس شبہ کا اعتبار کر لیں تو ہمیں وہ تمام دلائلِ شرعیہ ترک کرنے پڑیں گے جو ظنی الدالات ہیں اور یہ باطل ہے ۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے  
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الإسراء: 36 "سے استدلال سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود نہی ہے اس بات سے کہ کوئی انسان محلِ یقین میں امکانِ تیقن کے باوجود حصولِ یقین سے انحراف کر کے ظن و تخمین پر اعتماد کرے پس یہ نہی قیاس شرعی کو شامل نہیں کیونکہ فرع واصل کے درمیان علت جامعہ پاےئےجانے کی وجہ سے حکم کے اعتباد سے فرع کو اصل کے ساتھ لاحق کرنا اس حکم کے قبیل سے نہیں جس سے آیت میں منع کیا گیا ہے ، یعنی بغٰر علم کے قول کرنا، کیونکہ مجتہد اسی چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک راجح ہوتی ہے اور اسکا اجتہاد اس تک پہنچتا ہے۔

سوال نمبر 3۔۔۔۔۔ قیاس شرعی کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء نے قیاس کی حجیت کو کتاب و سنت اور اجماع سے نیز عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے، ہم ان میں سے بعض ذکر کرتے ہیں اور اگر مزید دلائل معلوم کرنے کا ارادہ ہو تو ان کتب اصول کی طرف مراجعت کی جاے جن کا میں نے منکرین قیاس کے شبہات کے رد میں پہلے ذکر کیا ہے۔ کتاب اللہ سے دلیل فرمان الہیٰ ہے۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ ِلأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنْ اللَّهِ فَأَتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمْ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ (الحشر: 2
اللہ وہ ہے جس نے اہلِ کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ پہلے حشر کے وقت تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے سو ان پر اللہ کا عذاب ایسے طور پر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا وہ گراتے تھے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنین کے ہاتھوں، پس عبرت پکڑو اے ارباب بصیرت محل استدلال اللہ تعالیٰ کا فرمانفاعتبروایااولی الابصار ہے ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اس عذاب کی خبر دی جو بنو نصیر پر نازل ہوا تو ان کو حکم دیا کہ وہ عبرت پکڑیں اور الاعتبار العبور سے مشتق ہے ۔ اور العبور کا معنی ہے المجاوزۃ یعنی گذرنا۔ مقصود یہ ہے کہ اپنے نفوس کو ان پر قیاس کرو کیونکہ تم بھی ان جیسے بشر ہو اگر تم ان جیسے کام کرو گے تو تمہارے اوپر بھی وہی عذاب اتر پڑے گا جو ان پر اترا۔ پس یہ آیت تمام انواعِ اعتبار کو شامل ہے اور جب قیاس میں فرع واصل کے درمیان موجود علت جامعہ کی وجہ سے فرع سے اصل کی طرف مجاوزت ہوتی ہے تو یہ بھی اس اعتبار کے انواع میں داخل ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور
 سنت سے دلیل یہ ہے کہ
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کویمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو دریافت فرمایا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ ۔ فرمایا ! اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر آپ کو سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر؟ کہنے لگے میں اپنی رائےسے اجتہاد کروں گا۔ اور اسمیں کوتاہی نہ کروں گا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس پر اللہ کا شکر ہے جس پر اللہ کا رسول راضی ہے۔ (ابوداود۔ ترمذی، مسند احمد، ابوداود طیالسی) اور اس کی بہت سے محققین نے تصحیح کی ہے ) وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کتاب و سنت سے اجتہاد کی طرف منتقل ہونے کو درست قراردیا ہے اور قیاس بھی اجتہاد کے انواع میں سے ایک نوع ہے۔ علاوہ ازیں عمل بالقیاس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور ہر وہ امر جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو وہ حق ہے اس کا التزام واجب ہے،

اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اپنا مشہور حکمامہ تحریری طور پر بھیجا کہ اشباہ و نظایر کو پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجیے (سنن کبریٰ بیہقی، الفقیہ والمتفقہ للخطیب)
 عقلی دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص محدود اور متناہی ہیں اور لوگوں کو درپیش مسایل غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر زمان و مکان میں نےء مسایل ظہور پذیر ہوتے ہیں سو اگر ان کے احکام معلوم کرنے کے لیے کتاب و سنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی کے باقی رہ جائیں  گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے اور تمام نے پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے: ہر ہر واقعہ کے لیے شریعت میں حکم موجود ہے اور مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں۔

سوال نمبر 4۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے جو درست اجتہاد کرے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو غلط اجتہاد کرے اس کے لے ایک اجر ہے۔

جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد حاکم یا قاضی یا عالم مجتہدہے ۔ جب اس نے اجتہاد کیا اور اپنی ممکنہ استطاعت کسی مسلہ کے حکم معلوم کرنے میں صرف اس کے باوجود اس سے حکم میں غلطی ہو گئی تو وہ گناہ گار نہ ہو گا بلکہ اپنے اجتہاد پر ماجور ہو گا اور اگر اس نے حق کو پالیا تو اس کے لیے دو گنا اجر ہو گا ایک اجر اجتہاد پر دوسرا صابت حق پر: بشرطیکہ وہ شرائط اجتہاد کا علم و حامل ہو اور اگر شرائط اجتہاد کا عالم و حامل نہ ہو اور محص تکلف کر کے اجتہاد کرے اور علم کا دعویٰ کرے تو یہ حدیث اسکو شامل نہیں :
سوال نمبر 5۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کی آراء کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہوں تو کیا وہ قانون شرعی ہو جاتا ہے ؟ کیا اس کی اتباع واجب ہے ؟ یا اس کی مخالفت جائز ہے ؟

جواب۔۔۔۔ جب تمام فقہا مجتہدین کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہو جائیں تو اس کو اجماع شمار کیا جاتا ہے جس کی مخالفت ناجائز اور اتباع واجب ہے اور جو اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے وہ اس وعید کی زد میں آتا ہے جس کو ہم نے حجیت اجماع کے دلائل میں ذکر کیا ہے :۔
سوال نمبر 6۔۔۔۔۔۔ کیا احکامِ شرعیہ کے لیے قیاس کا چوتھے ماخذ کے طور پر اعتبار کیا جاتا ہے ؟

جواب۔۔۔۔۔کتاب و سنت اور اجماع کے بعد احکامِ شرعیہ معلوم کرنے کے لیے قیاس چوتھا ماخذ ہے۔ اس کے ذریعے احکامِ شرعیہ معلوم کئے جاتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں امام بخاریؒ نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کسی کے لیے بچاؤ نہیں مگر کتاب اللہ میں یا سنت نبویہ میں یا علماء کے اجماع میں جبکہ ان میں حکم موجود ہو پس اگر ان میں حکم موجود نہ ہو تو پھر قیاس ہے ۔ اس پر امام بخاری نے ترجمۃ الباب قائم کیا باب الاحکام التی تعرف بادلایل وکیف معنی الدلالۃ و تفسیر ھا۔ یعنی یہ باب ہے ان احکام کے بیان میں جو دلایل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور دلالت کیسے ہوتی ہے اور اس کی کیا تفسیر ہے ؟
(احکام القرآن 7۔172)

سوال نمبر7۔۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ اگر قائل کی مراد "انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین" والا قیاس ہے تو قائل کا یہ قول درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا اور غلط قیاس کیا اور حکماء نے کہا ہے کہ اللہ کے دشمن نے غلط کہا کیونکہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی حالانکہ وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں کہ وہ دونوں بے جان مخلوق ہیں۔ اور اگر قائل کا مقصد قیاس شرعی کا انکار و رد ہے اور اس پر طعن! تو یہ نا جایز ہے، کیونکہ ماہرین علماء کا اجماع ہے اخذ بالقیاس پر: اور اجماع مخالفت حرام، جبکہ شاذ اقوال کا کوی اعتبار نہیں۔
سوال نمبر8۔۔۔۔۔ اسلامی شریعت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید (یعنی تقلید شخصی) کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ مسئلہ تقلید کے اعتبار سے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔
۔(ایک)۔ مجتہدین یعنی وہ علماء جو دلائل سے مسائل مستنبط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ ان پر اجتہاد واجب ہے ۔

(
دو) عوام، یعنی وہ لوگ جو اجتہاد کی قدرت و اہلیت نہیں رکھتے ان کے لیے آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے۔ اور تقلید سے مراد یہ ہے کہ فقہی مسائل میں دلیل جانے بغیر مجتہد کے قول کی اتباع کرنا۔ اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الأنبياء:
پس پوچھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے۔ (الانبیاء-7) اور
 رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان زخمی صحابی کے مشہور واقعہ میں کہ " جب وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا: عاجز آدمی کے لیے بجز سوال کے کسی بات میں شفا نہیں"( ابوداؤد۔ ابن ماجہ، احمد ، حاکم، طبرانی)اور عامۃ الناس کو اجتہاد کا مکلف بنانا متعدذ ہے، کیونکہ اجتہاد کا تقاضا ہے کہ مجتہد میں خاص ذہنی صلاحیت ہو۔ علم میں پختگی ہو اور لوگوں کے احوال اور وقایع کی معرفت اور طلب علم اور اس پر صبر کی عادت اور اگر سب لوگ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ان کے حصول میں مشغول ہو جائیں تو کاروبار معشیت باطل ہو جائیں گے اور نظام دنیا درہم برہم ہو جاے گا ۔

سوال نمبر 9۔۔۔۔۔۔ کیا یہ آیت کریمہ "اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ " آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید پر منطبق ہوتی ہے یا نہیں ؟

جواب
۔۔۔۔۔ آیت سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو ارباب کی طرح بنالیا کیونکہ انہوں نے ان کی ہر چیز میں اطاعت کی چناچہ امام ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں میں نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آیا کہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی آپ نے فرمایا اے عدی اس کو اتار پھینک۔ یہ بت ہے اور میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے سورہ براءۃ کی یہ آیت تلاوت کی اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم(توبہ۔31) پھر فرمایا خوب سن لو وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے یہ اس کو حلال سمجھتے اور جب وہ ان پر کویئ چیز حرام کرتے تو یہ اس کو حرام سمجھتے۔ سو کہاں آئمہ اربعہ اور کہاںوہ احبار جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اللہ کی حلال ٹھہرائ ہوئ چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں ۔ اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ائمہ اعلام کو ان احبار جیسا سمجھا جائے کیونکہ ان ائمہ نے شریعت اسلامیہ کی خدمت میں اپنی پوری قوت صرف کی اور اس میں اپنی زندگیاں لگا دیں ان کے درمیان جو مسائل میں اختلاف ہے وہ درحقیقت اختلاف اجتہادات کی وجہ سے ہے ۔ ان کا یہ اختلاف باعث اجر ہے ۔ اور یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت ائمہ اربعہ کو بھی شامل ہے جھوٹ ہے ، بہتان ہے ۔ اسکا سبب جہالت عظیمہ ہے ۔
سوال نمبر 10۔۔۔۔۔۔ کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید شرک و کفر کے زمرہ میں داخل ہے ؟؟
جواب۔۔۔۔۔ ائمہ اربعہ کی تقلید غیر مجتہد کے لیے جائز ہے اس کا کفر و شرک کے ساتھ کویئی تعلق نہں آئمہ اربعہ حق اور دین کے داعی ہیں ۔ انہوں نے اپنے نفوس کو علم شریعت کے سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کر دیا۔ حتیٰ کہ اس علم کا بڑا حصہ پایا۔ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کی قدرت و صلاحیت پیدا ہو گیء۔ سو عامۃ المسلمین جو ان کے مقلد ہیں وہ راہِ ہدایت اور راہِ نجات پر ہیں انشاللہ۔

سوال نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مقلدین شرک اور کفر کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ عقیدہ غلط ہے اس کی قطعاً کوی بنیاد نہیں اور یہ عقیدہ دلالت کرتا ہے شریعت اسلامیہ سے بڑی جہالت پر کیونکہ شریعت اسلامیہ نے کفروایمان شرک وتوحید کے درمیان فرق کیا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ دین کا اتنا حصہ ضرور سیکھے جس کے ساتھ وہ شرک و کفر اور اجتہاد کے درمیان فرق کر سکے۔

سوال نمبر 12۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کے محتاج ہیں یا نہیں؟ اور جس مسئلہ میں نص نہ ہو اس میں تقلید گمراہی ہے یا نہیں ؟۔
جواب۔۔۔۔۔۔ اسکا جواب ویسا ہی ہے جیسا ہم نے پہلے تفصیلاً لکھا ہے کہ غیر مجتہد محتاج ہے مجتہد کی تقلید کی طرف اور مجتہد کی تقلید خواہ غیر منصوص مسئلہ میں ہو یا نص کے سمجھنے میں ہو جائزہے یہ تقلید گمراہی کی طرف مفضی نہیں ہے بلکہ اسکا گمراہی سے کوی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔  


Hanafi Vs Ahle Hadith Maslak aur Aaam Musalman Ka Sanha

Yeh khat internet par bahut tezi se chal raha hai Mere pass bhi ayee hai is darkhast ke sath ki ise aam kiya jae. Waqie ismein bahut hi pur magz baat hai aur Maslaki ikhtalaf ki asal wajoohat aur uske hal ke silsile mein bahut acchi shuruaat hai.
Download PDF ke liye bhi yeh available hai.

مکرم ومحترم ، زید مجدکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ خط ایک  عام مسلمان کی طرف سے ہزاروں علمائے امت  ،زعمائے امت ، سربراہان ملت اورتمام مسلمانوں کے نام   ایک فتنے اور خلفشار سے بچانےکے لئے  ایک مؤدبانہ درخواست کے طور پر لکھا جا رہا ہے  ،۔آپ حضرات تعلیم  وتدریس ، دعوت وتبلیغ  ، اصلاح و تزکیہ  ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے  مختلف شعبوں میں لگ کرامتِ مسلمہ اور انسانیت کو نفع پہنچا رہے ہیں ،اللہ آپ سب کو قبول فرمائے،اور آپ لوگوں سے امت کو مستفید فرمائے
               فقہ  کا اختلاف  علماء کرام کے بیچ   ایک خالص علمی واجتہادی مسئلہ ہے جو امت کے تاریخ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے  ۔ اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتفصیل کوقبول کرتے ہوئے اپنی علمی   و اجتہادی استعداد اور دماغی حیثیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے ۔ اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا تھا،  ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ وجدال اور سب وشتم کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے ۔
موجودہ صورت حال اور ایک نیا سانحہ
لیکن یہ خالص علمی واجتہادی مسئلہ  جو سلف  والصالحین  کے اخلاص کے وجہ سے کبھی امت کے افتراق اور انتشار کا سبب نہیں بناآج ایک فتنہ کی شکل اختیار کر رہا ہے ،جو کسی سے بھی چھپا نہیں ہے ۔
اس  سلسلے میں ایک نیا سانحہ یہ جڑ گیا ہے  کہ عام مسلمانوں کے وہ تعداد جو صرف دنیوی علم حا صل کیئے ہوئے ہیں  انٹرنیٹ /یوٹیوب /فیسبک /کے ذریعہ سے   اس مسئلے میں داخل ہو رہے ہیں اس میں  امت کے ڈاکٹر،انجینئر،  اور اسکے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ۔
یہ اختلافی موضوعات جو مدرسے کی چہار دیواری اور کتابوں میں قرآن و سنت کے دلیلوں کے ساتھ ہوتا ہے جب کچھ لوگ عوام کے بیچ لیکر آجاتے ہیں تو اس میں اتنے  عنصر شامل ہو جاتے ہیں  کہ علم کی صاف شفاف ندی ایک گندے نالے میں تبدیل ہو جاتی ہے  جیسے کہ  جمنا ندی کا حال دلّی میں ہے  ۔جسکی وجہ کر عوام کی ایک تعداد اس گندگی میں الجھ گئی ہے  جو بحث و مباحثہ تکرار سے بڑھ کر لڑائی جھگڑا  کی نوبت تک آگیا ہے پچھلے سال ہمارے آبائی وطن کے قریب گاؤں میں پولیس بھی آگئی تھی اور ایک غیر مسلم حکومتی افسر  مسلمانوں کے خالص دینی علمی مسئلہ کے حل کرنے کا ثالث بنا  ۔
اس سے پہلے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیئے کچھ اقدام کریں  چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔
ایسے تو ہندستان میں مسلمانوں کے دو بڑے گرو ہیں1۔ اہل حدیث مکتبہ فکر جو فقہ میں کسی امام کی تقلیدنہیں کرتے ،   2۔حنفی حضرات جو فقہ میں  امام ابو حنیفہ  اور انکے مکتبہ فکر کی تحقیق کی تقلید کرتے ہیں ۔حنفی حضرات میں  پھر دو گرو ہ ہیں ۔بریلوی مکتبہ فکر اور  دیوبندی مکتبہ فکر  لیکن عوام کی بحثوں میں عام طور پر بریلوی ۔دیوبندی حضرات کے مدعے زیرِ بحث نہیں ہوتے خاص کر پڑھے لکھے طبقے میں باالکل نہیں  ۔کیونکہ یہ الزامی اور التزامی نوعیت کے ہیں  ۔
              لہٰذا عوام کے بیچ کی ساری بحث  جس میں کچھ اصول کی بات ہوتی ہے اہلِ حدیث  اور حنفی حضرات کے بیچ ہے-حالانکہ ان دونوں میں سے ایک گرو زیادہ متشدد ہے اور عوام کے بیچ اسی نے اس مسئلہ کو لانے کی شروعات کی ہے   ،اور اس تکرار کی شروعاتی دور میں اب سے   5-10 سال پہلےتک حاوی تھا  اور یہ ایک طرفہ معاملہ تھا    ،لیکن اب دوسرا گرو بھی ہم کسی سے کم نہیں کے انداز میں زبردست مقابلہ کر رہا ہے ۔
1                           1۔عوام کے بیچ اس پورےبحث مباحثہ میں کوئی مستند اور بڑے عالم یا کوئی بڑا مدرسہ شامل نہیں ہےمیں نے کبھی نہیں سنا کہ جمیعت اہلِ حدیث کے صدر  یا جامعہ سلفیہ کے محدث دیوبند یا ندوۃالعلماء کے مہتمم یا محدث سے کسی اختلافی مسئلہ پر عوام میں بحث کر رہے ہیں ۔حتیٰ کہ حنفی اور اہلِ حدیث مدرسوں کے عام استاد بھی  کبھی ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر بحث مباحثہ یا سب و شتم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔بلکہ اکثر اہل علم اپنے اپنے شعبوں اور خدمات میں اتنے مشغول ہیں  کہ انہیں  حالات کی سنگینی کا علم بھی نہیں ہے  ،یہ اپنے آپ میں ایک فکر کی چیز ہے  کہ بڑے علماء کا عوام سے براہ ِراست رابطہ کتنا ہے اور اس سلسلے کو  کس طرح مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
2                           2۔عوام کے بیچ اس مسئلہ کے لانے والے لوگوں میں مدرسوں سے پڑھے ہوئے کچھ متوسط علم وفہم کے لوگ ہیں  جن میں اکثر علم کا فقدان اور   مزاج کی سختی کا مجموعہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عالم نما لوگ ہیں جو عربی تک نہیں جانتے  لیکن اپنے کو محقق اور مجتہد کے طور پر پییش کرتے  ہیں ۔جو مقررحضرات عوام کی سطح پر ان موضوعات پر انکی ذہن سازی کرتے ہیں  یا دوسرے گرو ہ کو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ،   ان کا تعلق انٹرنیٹ ویب سا ئٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل /بلاگس/چھوٹی چھوٹی کتابیں /پمفلیٹ/کے ذریعہ سیدھے عوام سے  رابطہ ہوتا ہے۔ بڑے علماء کرام اور  مدرسوں کے محدثین کا عوام سے تعلق نہیں کے برابر ہے  اس کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا ہے۔
ان حضرات کی اپنی بات کو وزن دینے اور دوسرے کو  زِیر کر نے کی حکمت عملی
عوام کو اپنی طرف مائل کرنےاور جذبات کو ابھارنےکےلئےلوگ چندحکمت عملی کااستعمال  کرتے ہیں۔
(یہاں پر جو مثالیں لکھی جا رہی ہیں  یہ صرف سمجھانے کے لیئے ہے  ۔ کسی ایک گروہ  پر الزام نہیں ہے حقیقتاً دونوں گروہ کے متشدد لوگ اس میں شامل ہیں کسی مسئلہ میں   ایک گروہ ظلم کرتا ہے دوسرا مظلوم ہوتا ہے  ۔پھر کبھی دوسرا ظلم کرتا ہے اور پہلا مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ۔)    
حکمت عملی نمبر 1 عوام کو کچھ لوگ اپنے تقریر /کتابیں /انٹرنیٹ /ٹی وی چینل کے ذریعے سے یہ بتاتے ہیں کہ جو ہمارا طریقہ ہے وہی صحیح ہے۔ اور باقی غلط ہیں۔ یا  ۔۔۔۔ہمارا زیادہ صحیح ہے یا ۔۔۔۔ہم لوگ صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اور باقی لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔
مثال  ۔ نماز میں ہاتھ رکھنے کا مسئلہ   ایک گروپ کے لوگ عوام کو یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کو سینے  پر  رکھنا چاہئے  کیونکہ صحیح حدیث سے ایسا ہی ثابت ہے  اور زیادہ صحیح ہے ۔سینے کے نیچے یا ناف کے نیچے ہاتھ رکھنے کی حدیث ضعیف ہے ۔ بعض متشدد لوگ تو آسانی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ رکھنا  صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔اور ناف کے نیچے رکھنا امام کی رائے ہے۔حالانکہ جب ہم سلف الصالحین علماء کی کتابوں سے رجوع کرتے ہیں  جیسےامام ابن قییم ؒ کی مشہور کتاب "زاد المعاد" جسے محمد بن عبدالوہاب ؒ نے تلخیص کی ہے ۔جسے سعودی عرب کے مذہبی امور اور دعوت کے شعبے نے شائع کیا ہے- اسکا عنوان ہے ۔آں حضرت  ﷺ کی نماز کا طریقہ (زاد المعاداردو ترجمہ   صفحہ نمبر 28 لائن 5-9)
"دونوں انگلیوں کو پھیلا کر انکو قبلی کی طرف کر کے کان کی لو یا مونڈھے تک اٹھاتے تھے ،پھردائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی اور بازو پر رکھتے تھے۔دونوں ہاتھ کو رکھنے کی جگہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے لیکن ابو داؤد نے حضرت علیؒ سے روایت کیا ہے کہ سنّت یہ  ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر  ناف کے نیچے باندھا جائے"
 حکمت عملی نمبر 2 عوام کو ایک صحیح حدیث پیش کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف یہی حضور پاک ﷺ کا طریقہ ہے ۔اور اس بات کو چھپا لیا جاتاہے  کہ اس عمل کی تفصیل کے لیئے دوسری صحیح حدیث بھی موجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں  عوام سے یہ چھپا لیا جاتا ہے کہ ایک عمل کے کرنے کے صحیح حدیث کی بنیاد پر ایک سے زیادہ طریقے ہو سکتے ہیں۔
1          حکمت عملی نمبر 3 بعض  نا سمجھ انٹر نیٹ پرتو گالی گلوج پر اتر آتے ہیں  -مثال کے طور پر  ----- حنفی لوگ امام ابو حنیفہ کے دین پر چلتے ہیں نہ کہ حضرت محمد ؐ کے دین پر ۔،غیر مقلد  ملکہ ویکٹوریہ کی اولاد ہیں ،غیر مقلد  کو انگریزوں نے کھڑا کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا یا جائے، امام ابو حنیفہ کو صرف 17 حدیثیں یاد تھیں ،حنفی مسلک  قرآن و حدیث کے خلاف ہے ،فقہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،فقہ قرآن و حدیث کے خلاف ایک نظام ہے ،  تقلید شرک ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔جاہل بد دماغ  کور مغز ملّا  ،تبلچی  ملّے ،بد باطل  وغیرہ وغیرہ ۔(یہ الفاظ دینی تقاریر سے ماخوذ ہیں)
2                          3۔جو لوگ  انٹرنیٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل پر ا ن موضوعات پر تقریر کرتے ہیں  ان کی علمی حیثیت کے علاوہ ،الفاظ کا تشدد، اپنے مسلک کی عصبیت،  اپنے گروہ کو مضبوط کرنے کی فکر، عوام کو اپنے طرف مائل کرنے کی فکر حالات کو سنگین بنادیتے ہیں ۔یہ حضرات ایک دوسرے گروہ کے لیئے جن الفاظ و لہجہ اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ دوسرا گروہ اسلام کا اور قرآن و حدیث کا  مخالف ہے ۔اور منافقت میں صرف اسلام کا نام لیتا ہے ۔جسکی وجہ کر عوام اسے کفر اور اسلام کا معارکہ سمجھ کر  اپنے اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
عوام میں کچھ ذہنی طور پر دیندار لوگ ہیں  جو ان بحث مباحثہ کو عین اسلام  اور  کفر و ایمان کا معارکہ سمجھتے ہیں ،جسکی وجہ کر ان مقرر حضرات کی  خوب پذیرائی کرتے ہیں  اور جہاں مدرسوں میں پڑھانے والے عالم کو یا مسجد کے امام حضرات کو 5-10 ہزار مشکل سے ملتا ھے  یہ مقرر حضرات اچھا پیسہ کماتے ہیں   ان میں  کئی کی اپنی ویب سا ئٹ /یوٹیوب چینل وغیرہ    ہیں اور ایک فعال ٹیم ہے جو  ان سب کا نظام دیکھتی ہے۔ بعض تو صرف ہوائی جہاز سے سفر کی شرط پر  پروگرام کا وقت  دیتے ہیں ۔
              4۔حالاں کہ صرف 1-2فیصد عام مسلمان ان معاملات میں شامل ہیں ،لیکن  چوں کہ 90 فیصد  مسلمان کو دین سے کم دلچسپی ہے۔لہٰذا    باقی بچے دس فیصد جو ذہنی طور  پر دیندار سمجھے جاتے ہیں ان میں یہ ایک دو فیصد   تعداد کے اعتبار سے ورغلانے یا خاندان یا محلے کا ماحول خراب کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے ۔
عملی اقدام کے لیئے تجاویز
         1۔ تنظیموں اور مدرسوں کے ذمہ داران ایک  جگہ بیٹھ کر امت کے اجتماعی مسئٰلہ کے بارے میں غور فکر کریں  کہ     علمی اور اجتہادی بحث اہل علم کے بیچ رہے ۔ اور غیر استعداد لوگوں کے بیچ آکر گروہی  شدت پسندی ،تعصب،سب و شتم  کا شکار نہ ہو  ۔ (ان اداروں پر خاص ذمہ داری ہے چونکہ عوام میں اچھی پہچان ہے  جیسےآل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڑد ، دارالعلوم دیوبند ،سہارنپور ، جامعہ سلفیہ ، جامعہ عمراباد ،ندوہ،مدرسہ اشرفیہ ،جامعتہ الفلاح ، جمیعتہ اہلِ حدیث، جمیعت علماء ہند ، جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ ۔یہاں نام  صرف مثال کے لیئے دیئے گئے ہیں ہر  مسلمان ،ہر مدرسہ اور ہر تنظیم کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے اور ذمہ داری ادا نہیں کرنے کے  بارے میں روزِِ قیامت پوچھ ہوگی  )
             2۔ اگر منا سب سمجھا جائے تو اس کی کوشش ہو  کہ مسلمانوں کے کچھ جانے پہچانے مقرر اور مصنف ہیں ان کو  ایک جگہ جمع کر کے ان سے گفت شنید اور آپس کی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔انٹر نیٹ پر موجود مواد کی روشنی میں چند نا موں کی نشاندہی کی جار ہی ہے  جن کا جڑنا  اس سلسلہ کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنائےگی ۔یہ چند نام جو انٹر نیٹ کے حوالے سے لکھے گئے ہیں ان میں سب کی نوعیت الگ الگ ہے  اور  بظاہر اچھے لوگ ہیں       ۔اور انمیں سے کئی مفید کام کر رہے ہیں۔ یہاں یہ نام دینے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اس خط میں دیئے گئے کسی بات کے بارے میں ان پر الزام ہے ۔ یہ صرف اس لیئے دیئے گئے ہیں کہ  یہ لوگ انٹر نیٹ پر ایکٹو ہیں اورمسئلہ کے حل کے سلسلے میں مفید ہو سکتے ہیں ۔نام درج ذیل ہیں ۔
جناب معراج ربانی صاحب ،جناب انظڑ شاہ وقاسمی صاحب(بنگلور)،جناب ابو زید ضمیر صاحب (پونہ)،جناب ابو بکر غازی پوری صاحب(دیوبند)،جناب پالن حقانی صاحب، جناب ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب (بمبئی)،جناب ساجداے قیوم  صاحب،۔جناب آر کے نور محمد صاحب (چنئی)۔
اسکے علاوہ کچھ لوگ دوسرےملکوں کے ہیں جو انٹر  نیٹ کے ذریعہ سے اس مسئلہ سے جڑے ہیں۔جن سے رابطہ کی کوشش زیادہ مشکل نہیں ہے۔جناب توصیف الرحمان صاحب،جناب الیاس گھمن صاحب،جناب طا لب الرحمن صاحب  ،جناب فیصل آزاد صاحب ،(اردو زبان ۔سبھی پاکستان کے) انگلش زبان میں جناب ممتازالحق ،جناب وقاص احمد صاحب ،اور جناب ابو موصاب واجد اککری صاحب  ۔بنگلہ زبان میں جناب مطیع الرحمان صاحب وغیرہ و  غیرہ
          3۔ مدرسوں کے نصاب میں Islamic Ethics of Disagreementاختلاف کا اسلامی ضابطہ کے عنوان سے ایک  سبجیکٹ  ہونا چاہئے  جن میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اختلافات کی درجہ بندی  اور اس کو ڈیل کرنے کے بارے میں مواد طالب علموں کو پڑھایا جانا چاہئے ۔
           4۔مدرسوں کے نصاب میں  ایسا نظام ہونا ضروری ہے جس سےمدرسے کے فارغین  عام ،مسلمانوں کو در پیش افکاری فتنوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ورنہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک گروہ کا شدّت پسند  اپنے  موقف کے لیئے  حدیث  پیش کرتا  ہے ۔اور دوسرے حدیثوں کو چھپا لیتا ہے ۔جس سے دوسرے گروہ کا موقف کمزور ہو جاتا ہے ۔تو مدرسے کے فارغین سے  جب عوام پوچھتی ہے تووہ تشفی بخش جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں صلاحیت نہیں ہے  بلکہ وجہ یہ ہے کہ اپنی بات کو وزن دینا اور دوسرے کو  زِیر کرنا ایک فن ہے ۔اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جو سامنے والے کی حکمت ِ عملی سے واقف ہو ۔ اور  اس  کام کے لیئے طویل مدت درکار نہیں ہے ۔ بلکہ 15-20 دن کافی ہیں ۔چونکہ جن مسئلوں پر شدت پسند لوگ عوام کو ورغلاتے ہیں ان کی تعداد بمشکل 20-25 ہے ۔
                            5۔اس پورے مسئلہ کی  سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ علم کی گہرائی والے سنجیدہ مزاج اور تقوی  والے علماء کرام کا عوام سے تعلق کمزور ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے  کہ مدرسوں کے اساتذہ اور محدثین حضرات   عوام سے براہ راست رابطہ کریں ۔تاکہ  کم فہم اور کم صلاحیت والے لوگ اہل علم سے الگ ہو جائیں ۔اور عوام جان لے کہ فقہی و فروعی اختلاف کی نوعیت  کفرو ایمان یا صحیح یا غلط کی نہیں ہے ۔
یہ خط اس سلسلے  کی ایک چھوٹی  کوشش ہے اس پر آئے جوابات کی روشنی میں آگے کا لاہ عمل تیار کیا جائےگا ۔ آپ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ اس سلسلےمیں اپنے مفید مشوروں سے  نوازیں  اور عام مسلمانوں کو اس فتنے اور خلفشار سے بچائیں  ۔اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دیگا ۔ اس کو ایک بیکار موضوع نہ سمجھیں بلکہ آپ حضرات  جو تعلیم  وتدریس ، دعوت وتبلیغ  ، اصلاح و تزکیہ  ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے  مختلف شعبوں میں ہیں  ان سب کے بقاء کے لیئے عوام کو فتنہ اور خلفشار سے بچانا ضروری ہے۔          ۔
طالب دعاء  
ڈاکٹر سیّدابو طوبہ
رابطہ کریں

 برائے مہربانی اس  خط کو زیادہ سے زیادہ اہل علم ،علمائے امت،زعمائے امت تک پہنچا ئیں۔جزاک اللہ خیر