Yeh khat internet par bahut tezi se chal raha hai Mere pass bhi ayee hai is darkhast ke sath ki ise aam kiya jae. Waqie ismein bahut hi pur magz baat hai aur Maslaki ikhtalaf ki asal wajoohat aur uske hal ke silsile mein bahut acchi shuruaat hai.
Download PDF ke liye bhi yeh available hai.
مکرم ومحترم ، زید مجدکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ خط ایک عام
مسلمان کی طرف سے ہزاروں علمائے امت
،زعمائے امت ، سربراہان ملت اورتمام مسلمانوں کے نام ایک
فتنے اور خلفشار سے بچانےکے لئے ایک
مؤدبانہ درخواست کے طور پر لکھا جا رہا ہے
،۔آپ حضرات تعلیم وتدریس ، دعوت
وتبلیغ ، اصلاح و تزکیہ ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے مختلف شعبوں میں لگ کرامتِ مسلمہ اور انسانیت
کو نفع پہنچا رہے ہیں ،اللہ آپ سب کو قبول فرمائے،اور آپ لوگوں سے امت کو مستفید
فرمائے
فقہ کا اختلاف
علماء کرام کے بیچ ایک خالص علمی
واجتہادی مسئلہ ہے جو امت کے تاریخ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اگر قرآن پر مجتمع
رہتے ہوئے اور حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتفصیل کوقبول کرتے ہوئے
اپنی علمی و
اجتہادی استعداد اور
دماغی حیثیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری
ہے ۔ اور اسلام اس
سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ
وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا تھا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا
جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ وجدال اور سب وشتم کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ بھی
مذموم ہے ۔
موجودہ صورت حال اور ایک نیا سانحہ
لیکن یہ خالص علمی واجتہادی مسئلہ جو سلف
والصالحین کے اخلاص کے وجہ سے کبھی
امت کے افتراق اور انتشار کا سبب نہیں بناآج ایک فتنہ کی شکل اختیار کر رہا ہے ،جو
کسی سے بھی چھپا نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں ایک
نیا سانحہ یہ جڑ گیا ہے کہ عام مسلمانوں
کے وہ تعداد جو صرف دنیوی علم حا صل کیئے ہوئے ہیں انٹرنیٹ /یوٹیوب /فیسبک /کے ذریعہ سے اس مسئلے میں داخل ہو رہے ہیں اس میں امت کے ڈاکٹر،انجینئر، اور اسکے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو لکھنا
پڑھنا جانتے ہیں ۔
یہ اختلافی موضوعات جو مدرسے کی چہار دیواری اور کتابوں میں
قرآن و سنت کے دلیلوں کے ساتھ ہوتا ہے جب کچھ لوگ عوام کے بیچ لیکر آجاتے ہیں تو
اس میں اتنے عنصر شامل ہو جاتے ہیں کہ علم کی صاف شفاف ندی ایک گندے نالے میں
تبدیل ہو جاتی ہے جیسے کہ جمنا ندی کا حال دلّی میں ہے ۔جسکی وجہ کر عوام کی ایک تعداد اس گندگی میں
الجھ گئی ہے جو بحث و مباحثہ تکرار سے بڑھ
کر لڑائی جھگڑا کی نوبت تک آگیا ہے پچھلے
سال ہمارے آبائی وطن کے قریب گاؤں میں پولیس بھی آگئی تھی اور ایک غیر مسلم حکومتی
افسر مسلمانوں کے خالص دینی علمی مسئلہ کے
حل کرنے کا ثالث بنا ۔
اس سے پہلے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیئے کچھ اقدام کریں چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔
ایسے تو ہندستان میں مسلمانوں کے دو بڑے گرو ہیں1۔ اہل حدیث
مکتبہ فکر جو فقہ میں کسی امام کی تقلیدنہیں کرتے ، 2۔حنفی حضرات جو فقہ میں امام ابو حنیفہ اور انکے مکتبہ فکر کی تحقیق کی تقلید کرتے ہیں
۔حنفی حضرات میں پھر دو گرو ہ ہیں ۔بریلوی
مکتبہ فکر اور دیوبندی مکتبہ فکر لیکن عوام کی بحثوں میں عام طور پر بریلوی ۔دیوبندی
حضرات کے مدعے زیرِ بحث نہیں ہوتے خاص کر پڑھے لکھے طبقے میں باالکل نہیں ۔کیونکہ یہ الزامی اور التزامی نوعیت کے ہیں ۔
لہٰذا
عوام کے بیچ کی ساری بحث جس میں کچھ اصول
کی بات ہوتی ہے اہلِ حدیث اور حنفی حضرات کے
بیچ ہے-حالانکہ ان دونوں میں سے ایک گرو زیادہ متشدد ہے اور عوام کے بیچ اسی نے اس
مسئلہ کو لانے کی شروعات کی ہے ،اور اس
تکرار کی شروعاتی دور میں اب سے 5-10 سال
پہلےتک حاوی تھا اور یہ ایک طرفہ معاملہ
تھا ،لیکن اب دوسرا گرو بھی ہم کسی سے
کم نہیں کے انداز میں زبردست مقابلہ کر رہا ہے ۔
1
1۔عوام کے بیچ اس پورےبحث
مباحثہ میں کوئی مستند اور بڑے عالم یا کوئی بڑا مدرسہ شامل نہیں ہےمیں نے کبھی
نہیں سنا کہ جمیعت اہلِ حدیث کے صدر یا
جامعہ سلفیہ کے محدث دیوبند یا ندوۃالعلماء کے مہتمم یا محدث سے کسی اختلافی مسئلہ
پر عوام میں بحث کر رہے ہیں ۔حتیٰ کہ حنفی اور اہلِ حدیث مدرسوں کے عام استاد
بھی کبھی ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر
بحث مباحثہ یا سب و شتم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔بلکہ اکثر اہل علم اپنے اپنے
شعبوں اور خدمات میں اتنے مشغول ہیں کہ
انہیں حالات کی سنگینی کا علم بھی نہیں
ہے ،یہ اپنے آپ میں ایک فکر کی چیز
ہے کہ بڑے علماء کا عوام سے براہ ِراست
رابطہ کتنا ہے اور اس سلسلے کو کس طرح
مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
2
2۔عوام کے بیچ اس مسئلہ کے لانے
والے لوگوں میں مدرسوں سے پڑھے ہوئے کچھ متوسط علم وفہم کے لوگ ہیں جن میں اکثر علم کا فقدان اور مزاج کی سختی کا مجموعہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ
عالم نما لوگ ہیں جو عربی تک نہیں جانتے
لیکن اپنے کو محقق اور مجتہد کے طور پر پییش کرتے ہیں ۔جو مقررحضرات عوام کی سطح پر ان موضوعات پر
انکی ذہن سازی کرتے ہیں یا دوسرے گرو ہ کو
ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ،
ان کا تعلق انٹرنیٹ ویب سا ئٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل /بلاگس/چھوٹی
چھوٹی کتابیں /پمفلیٹ/کے ذریعہ سیدھے عوام سے رابطہ ہوتا ہے۔ بڑے علماء کرام اور مدرسوں کے محدثین کا عوام سے تعلق نہیں کے
برابر ہے اس کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا
ہے۔
ان حضرات کی اپنی بات کو وزن دینے اور دوسرے کو زِیر کر نے کی حکمت عملی
عوام کو اپنی طرف مائل کرنےاور جذبات کو ابھارنےکےلئےلوگ
چندحکمت عملی کااستعمال کرتے ہیں۔
(یہاں پر جو مثالیں لکھی جا رہی ہیں یہ صرف سمجھانے کے لیئے ہے ۔ کسی ایک گروہ پر الزام نہیں ہے حقیقتاً دونوں گروہ کے متشدد
لوگ اس میں شامل ہیں کسی مسئلہ میں ایک
گروہ ظلم کرتا ہے دوسرا مظلوم ہوتا ہے
۔پھر کبھی دوسرا ظلم کرتا ہے اور پہلا مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ وقت اور حالات کے
اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ۔)
حکمت عملی نمبر 1 عوام
کو کچھ لوگ اپنے تقریر /کتابیں /انٹرنیٹ /ٹی وی چینل کے ذریعے سے یہ بتاتے ہیں کہ
جو ہمارا طریقہ ہے وہی صحیح ہے۔ اور باقی غلط ہیں۔ یا ۔۔۔۔ہمارا زیادہ صحیح ہے یا ۔۔۔۔ہم لوگ صحیح
حدیث پر عمل کرتے ہیں اور باقی لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔
مثال ۔ نماز میں
ہاتھ رکھنے کا مسئلہ ایک گروپ کے لوگ عوام کو یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کو سینے پر
رکھنا چاہئے کیونکہ صحیح حدیث سے
ایسا ہی ثابت ہے اور زیادہ صحیح ہے ۔سینے
کے نیچے یا ناف کے نیچے ہاتھ رکھنے کی حدیث ضعیف ہے ۔ بعض متشدد لوگ تو آسانی کے
ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ رکھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔اور ناف کے نیچے رکھنا
امام کی رائے ہے۔حالانکہ جب ہم سلف الصالحین علماء کی کتابوں سے رجوع کرتے
ہیں جیسےامام ابن قییم ؒ کی مشہور کتاب
"زاد المعاد" جسے محمد بن عبدالوہاب ؒ نے تلخیص کی ہے ۔جسے سعودی عرب کے
مذہبی امور اور دعوت کے شعبے نے شائع کیا ہے- اسکا عنوان ہے ۔آں حضرت ﷺ کی نماز کا طریقہ (زاد المعاداردو
ترجمہ صفحہ نمبر 28 لائن 5-9)
"دونوں انگلیوں کو پھیلا کر انکو قبلی کی طرف کر کے
کان کی لو یا مونڈھے تک اٹھاتے تھے ،پھردائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی اور
بازو پر رکھتے تھے۔دونوں ہاتھ کو رکھنے کی جگہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت
نہیں ہے لیکن ابو داؤد نے حضرت علیؒ سے روایت کیا ہے کہ سنّت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے باندھا جائے"
حکمت عملی
نمبر 2 عوام کو ایک صحیح حدیث پیش کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف
یہی حضور پاک ﷺ کا طریقہ ہے ۔اور اس بات کو چھپا لیا جاتاہے کہ اس عمل کی تفصیل کے لیئے دوسری صحیح حدیث
بھی موجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں عوام سے
یہ چھپا لیا جاتا ہے کہ ایک عمل کے کرنے کے صحیح حدیث کی بنیاد پر ایک سے زیادہ
طریقے ہو سکتے ہیں۔
1
حکمت عملی نمبر 3 بعض نا سمجھ انٹر نیٹ پرتو گالی گلوج
پر اتر آتے ہیں -مثال کے طور پر ----- حنفی لوگ امام ابو حنیفہ کے دین پر چلتے
ہیں نہ کہ حضرت محمد ؐ کے دین پر ۔،غیر مقلد
ملکہ ویکٹوریہ کی اولاد ہیں ،غیر مقلد
کو انگریزوں نے کھڑا کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا یا جائے، امام
ابو حنیفہ کو صرف 17 حدیثیں یاد تھیں ،حنفی مسلک
قرآن و حدیث کے خلاف ہے ،فقہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،فقہ قرآن و حدیث کے
خلاف ایک نظام ہے ، تقلید شرک ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔جاہل
بد دماغ کور مغز ملّا ،تبلچی
ملّے ،بد باطل وغیرہ وغیرہ ۔(یہ
الفاظ دینی تقاریر سے ماخوذ ہیں)
2
3۔جو لوگ انٹرنیٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل پر ا ن
موضوعات پر تقریر کرتے ہیں ان کی علمی
حیثیت کے علاوہ ،الفاظ کا تشدد، اپنے مسلک کی عصبیت، اپنے گروہ کو مضبوط کرنے کی فکر، عوام کو اپنے
طرف مائل کرنے کی فکر حالات کو سنگین بنادیتے ہیں ۔یہ حضرات ایک دوسرے گروہ کے
لیئے جن الفاظ و لہجہ اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا
ہے کہ دوسرا گروہ اسلام کا اور قرآن و حدیث کا
مخالف ہے ۔اور منافقت میں صرف اسلام کا نام لیتا ہے ۔جسکی وجہ کر عوام اسے
کفر اور اسلام کا معارکہ سمجھ کر اپنے
اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
عوام میں کچھ ذہنی طور پر دیندار لوگ ہیں
جو ان بحث مباحثہ کو عین اسلام
اور کفر و ایمان کا معارکہ سمجھتے
ہیں ،جسکی وجہ کر ان مقرر حضرات کی خوب
پذیرائی کرتے ہیں اور جہاں مدرسوں میں
پڑھانے والے عالم کو یا مسجد کے امام حضرات کو 5-10 ہزار مشکل سے ملتا ھے یہ مقرر حضرات اچھا پیسہ کماتے ہیں ان میں
کئی کی اپنی ویب سا ئٹ /یوٹیوب چینل وغیرہ ہیں اور ایک فعال ٹیم ہے جو ان سب کا نظام دیکھتی ہے۔ بعض تو صرف ہوائی
جہاز سے سفر کی شرط پر پروگرام کا
وقت دیتے ہیں ۔
4۔حالاں کہ صرف 1-2فیصد عام
مسلمان ان معاملات میں شامل ہیں ،لیکن چوں
کہ 90 فیصد مسلمان کو دین سے کم دلچسپی
ہے۔لہٰذا باقی بچے دس فیصد جو ذہنی طور پر دیندار سمجھے جاتے ہیں ان میں یہ ایک دو
فیصد تعداد کے اعتبار سے ورغلانے یا
خاندان یا محلے کا ماحول خراب کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے ۔
عملی اقدام کے لیئے تجاویز
1۔ تنظیموں اور مدرسوں کے ذمہ
داران ایک جگہ بیٹھ کر امت کے اجتماعی مسئٰلہ
کے بارے میں غور فکر کریں کہ علمی اور اجتہادی بحث اہل علم کے بیچ رہے ۔
اور غیر استعداد لوگوں کے بیچ آکر گروہی
شدت پسندی ،تعصب،سب و شتم کا شکار
نہ ہو ۔ (ان اداروں پر خاص ذمہ داری ہے
چونکہ عوام میں اچھی پہچان ہے جیسےآل
انڈیا مسلم پرسنل لا بوڑد ، دارالعلوم دیوبند ،سہارنپور ، جامعہ سلفیہ ، جامعہ
عمراباد ،ندوہ،مدرسہ اشرفیہ ،جامعتہ الفلاح ، جمیعتہ اہلِ حدیث، جمیعت علماء ہند ،
جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ ۔یہاں نام صرف
مثال کے لیئے دیئے گئے ہیں ہر مسلمان ،ہر
مدرسہ اور ہر تنظیم کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے اور ذمہ داری ادا نہیں کرنے کے بارے میں روزِِ قیامت پوچھ ہوگی )
2۔ اگر منا سب سمجھا جائے
تو اس کی کوشش ہو کہ مسلمانوں کے کچھ جانے
پہچانے مقرر اور مصنف ہیں ان کو ایک جگہ
جمع کر کے ان سے گفت شنید اور آپس کی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔انٹر نیٹ پر
موجود مواد کی روشنی میں چند نا موں کی نشاندہی کی جار ہی ہے جن کا جڑنا
اس سلسلہ کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنائےگی ۔یہ چند نام جو انٹر نیٹ کے
حوالے سے لکھے گئے ہیں ان میں سب کی نوعیت الگ الگ ہے اور
بظاہر اچھے لوگ ہیں ۔اور
انمیں سے کئی مفید کام کر رہے ہیں۔ یہاں یہ نام دینے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اس
خط میں دیئے گئے کسی بات کے بارے میں ان پر الزام ہے ۔ یہ صرف اس لیئے دیئے گئے
ہیں کہ یہ لوگ انٹر نیٹ پر ایکٹو ہیں اورمسئلہ
کے حل کے سلسلے میں مفید ہو سکتے ہیں ۔نام درج ذیل ہیں ۔
جناب معراج ربانی صاحب ،جناب انظڑ شاہ وقاسمی صاحب(بنگلور)،جناب ابو زید ضمیر
صاحب (پونہ)،جناب ابو بکر غازی پوری صاحب(دیوبند)،جناب پالن حقانی صاحب، جناب
ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب (بمبئی)،جناب ساجداے قیوم
صاحب،۔جناب آر کے نور محمد صاحب (چنئی)۔
اسکے علاوہ کچھ لوگ دوسرےملکوں کے ہیں جو انٹر نیٹ کے ذریعہ سے اس مسئلہ سے جڑے ہیں۔جن سے
رابطہ کی کوشش زیادہ مشکل نہیں ہے۔جناب توصیف الرحمان صاحب،جناب الیاس گھمن
صاحب،جناب طا لب الرحمن صاحب ،جناب فیصل
آزاد صاحب ،(اردو زبان ۔سبھی پاکستان کے) انگلش زبان میں جناب ممتازالحق ،جناب
وقاص احمد صاحب ،اور جناب ابو موصاب واجد اککری صاحب ۔بنگلہ زبان میں جناب مطیع الرحمان صاحب وغیرہ
و غیرہ
3۔ مدرسوں کے نصاب میں
Islamic Ethics of Disagreementاختلاف کا اسلامی ضابطہ کے عنوان سے ایک سبجیکٹ
ہونا چاہئے جن میں قرآن و حدیث کی
روشنی میں اختلافات کی درجہ بندی اور اس
کو ڈیل کرنے کے بارے میں مواد طالب علموں کو پڑھایا جانا چاہئے ۔
4۔مدرسوں کے نصاب میں ایسا نظام ہونا ضروری ہے جس سےمدرسے کے فارغین عام ،مسلمانوں کو در پیش افکاری فتنوں سے بچانے
کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ورنہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک گروہ کا شدّت پسند اپنے موقف
کے لیئے حدیث پیش کرتا
ہے ۔اور دوسرے حدیثوں کو چھپا لیتا ہے ۔جس سے دوسرے گروہ کا موقف کمزور ہو
جاتا ہے ۔تو مدرسے کے فارغین سے جب عوام
پوچھتی ہے تووہ تشفی بخش جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ
ان میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ
اپنی بات کو وزن دینا اور دوسرے کو زِیر
کرنا ایک فن ہے ۔اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جو سامنے والے کی حکمت ِ عملی سے واقف
ہو ۔ اور اس کام کے لیئے طویل مدت درکار نہیں ہے ۔ بلکہ
15-20 دن کافی ہیں ۔چونکہ جن مسئلوں پر شدت پسند لوگ عوام کو ورغلاتے ہیں ان کی تعداد
بمشکل 20-25 ہے ۔
5۔اس پورے مسئلہ
کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ علم کی گہرائی
والے سنجیدہ مزاج اور تقوی والے علماء
کرام کا عوام سے تعلق کمزور ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ مدرسوں کے اساتذہ اور محدثین حضرات
عوام سے براہ راست رابطہ کریں ۔تاکہ
کم فہم اور کم صلاحیت والے لوگ اہل علم سے الگ ہو جائیں ۔اور عوام جان لے
کہ فقہی و فروعی اختلاف کی نوعیت کفرو
ایمان یا صحیح یا غلط کی نہیں ہے ۔
یہ خط اس سلسلے کی ایک چھوٹی کوشش ہے اس پر آئے جوابات کی روشنی میں آگے کا
لاہ عمل تیار کیا جائےگا ۔ آپ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ اس سلسلےمیں اپنے مفید
مشوروں سے نوازیں اور عام مسلمانوں کو اس فتنے اور خلفشار سے
بچائیں ۔اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دیگا
۔ اس کو ایک بیکار موضوع نہ سمجھیں بلکہ آپ حضرات
جو تعلیم وتدریس ، دعوت
وتبلیغ ، اصلاح و تزکیہ ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے مختلف شعبوں میں ہیں ان سب کے بقاء کے لیئے عوام کو فتنہ اور خلفشار
سے بچانا ضروری ہے۔ ۔
طالب دعاء
ڈاکٹر سیّدابو طوبہ
رابطہ کریں
برائے مہربانی اس خط کو زیادہ سے زیادہ اہل علم ،علمائے امت،زعمائے امت
تک پہنچا ئیں۔جزاک اللہ خیر